Skip to content

Month: May 2020

خود کو بھی میں نہیں موافق ہوں

خود کو بھی میں نہیں موافق ہوں
توبہ میں کس قدر منافق ہوں

اک یہی عیب مجھ میں کافی ہے
میں نہیں آپ کے مطابق ہوں

اس جہاں میں جہاں برائی ہے
میں ہی ناچیز اس کا خالق ہوں

آپ ناحق بھی ہیں تو ہیں حق پر
اور میں حق پہ ہو کے ناحق ہوں

وقت اب یوں نظر چراتا ہے
جیسے اس کا پرانا عاشق ہوں

اک طرف عشق اک حماقت ہے
اک طرف میں ازل سے احمق ہوں

اس مرض کی ہو کیا دوا ابرک
جس میں خود،خود کو خود ہی لاحق ہوں

Leave a Comment

میں وہ شخصجو تجھے کھو کے چپ رہا

میں وہ شخصجو تجھے کھو کے چپ رہا
یعنی _ میں خالی ہاتھ ہو کے چپ رہا

لمحہِ اول سے جانتا تھا میں شدّتِ طوفاں،
ارادتاً سفینہ اپنا_ ڈبو کے چپ رہا،

نم آنکھ اگر ہوتی تو غم چھلک جاتا،
کم خواب خشک آنکھوں سے رو کے چپ رہا،

خونِ جگر سے پالا میں نے جنونِ عشق،
اس گوہرِ کمیاب__ کو کھو کے چپ رہا،

میں مانتا تھا اس کو کل کائنات احمد~
اور ہاتھ دونوں جہان سے دھو کے چپ رہا

Leave a Comment

غمِ ہجر سے نہ دل کو کبھی ہمکنار کرنا

غمِ ہجر سے نہ دل کو کبھی ہمکنار کرنا
میں پِھر آؤں گا پلٹ کر میرا انتظار کرنا

مجھے ڈر ہے میرے آنسو تِری آنکھ سے نہ چھلکیں
ذرا سوچ کر سمجھ کر مجھے سوگوار کرنا

اُسے ڈھوُنڈ سب سے پہلے جو مِلا نہیں ہے تُجھ کو
یہ ستارے آسماں کے کبھی پھر شمار کرنا

مرے شہر کی فضا میں کوئی زہر بھر گیا ہے
ترے حسن پر ہے لازم اُسے خوشگوار کرنا

میں اُٹھاؤں گا نہ احساں تِرے بعد ناخدا کا
مجھے توُ نے ہی ڈبویا، مجھے توُ ہی پار کرنا

یہی رہ گیا مداوا مِری بدگمانیوں کا
تِرا مُسکرا کے مِلنا، مِرا اعتبار کرنا

مرے بدنصیب واعظ تری زندگی ہی کیا ہے
نہ کسی سے دل لگانا نہ کسی سے پیار کرنا

کبھی اقتدار بخشے جو خدا قتیلؔ تجھ کو
جو روش ہے قاتلوں کی وہ نہ اختیار کرنا

قتیل شفائی

Leave a Comment

ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﻦ ﮐﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮭﻮﺋﮯﮐﮭﻮﺋﮯﺳﮯﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯﮨﯿﮟ

ﺩﻭ ﻗﺪﻡ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺭﮦ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﺗﻢ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﺎﻧﭧ ﻟﯽ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﺏ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮔﻨﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﻗﺎﻓﻠﮧ ﭼﻞ ﮐﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ
ﭨﮭﮩﺮﻭﭨﮭﮩﺮﻭ ! ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻣﻨﮕﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ
ﺩﻧﮓ ﺍﮨﻞِ ﮐﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺘﺎﺭﯾﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ
ﻋﺎﺻﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﮮ ﺻﺒﺎ ! ﺍﯾﮏ ﺯﺣﻤﺖ ﺫﺭﺍ ﭘﮭﺮ
ءﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﺎﺋﻨﺎﺕِ ﺟﻔﺎ ﻭ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺁﺝ ﺳﺎﻗﯽ ﭘﻼ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ
ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﮔﻠﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﻭﮦ ﺗﻮ ﺁ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮯ
ﺩﻝ ﭘﮧ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﻝ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ،ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻭﮦ
ﮨﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﻭﺭِ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﺁﺧﺮ
ﺍﮮ ﻧﺼﯿﺮ ! ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﺼﯿﺮ ﮔﻮﻟﮍﻭﯼ

Leave a Comment

اس اک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں

اس اک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
میں جو بھی دیکھتا ہوں بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
ابھی سے ہاتھ کانپنے لگے میرے
ابھی تو میں نے وہ بدن چھوا نہیں
میں آرہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تیری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
میں راہ سے بھٹک گیا تو کیا ہوا
چراغ میرے ہاتھ میں تو تھا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بےخبر
میں مر چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آرہا ہے یا نہیں
یہ عشق بھی عجیب کہ اک شخص سے
مجھے لگا کہ ہوگیا ہوا نہیں
خدا کرے وہ پیڑ خیریت سے ہو
کئی دنوں سے اس کا رابطہ نہیں۔

تہذیب حافی

Leave a Comment

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حِدّت سے دِہک سا جاتا

رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی

میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا

جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

Leave a Comment

ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار

ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار
یہ کون آئے کہ گھر گھر سے در گئے افکار

تمام لوگ بہت خوش ہیں , اپنی مستی میں ہیں
میں کس سے بولوں مرے لوگ مر گئے افکار

وہ مجھ پہ غور کرے گا تو مجھ سے پوچھے گا
کہ آدھے آدھے ہو , آدھے کدھر گئے افکار

اساڈا ڈکھ , چھڑا ساڈا ھ .. کُئ کِنجے سمجھے
سو جگ ہنسائی ہوئی , ہم جدھر گئے افکار

ہماری آنکھ کھلی , تم نہیں تھے , خامشی تھی
لگا کہ بستی سے دریا گزر گئے افکار

تمہارے بعد ہمیں وسوسوں نے گھیر لیا
کسی نے ہنس کے بلایا تو ڈر گئے افکار

خدا بچائے کہ شہرت فریبی کتیا ہے
یہ صرف بھونکی , مرے بال و پر گئے افکار

افکار علوی

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں ترے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے

کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جائے
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے

مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھ کو مرا چہرہ نہ ملے

لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ برے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے ہمیں دیکھا ، نہ ملے

بس یہی کہہ کے اسے میں نے خدا کو سونپا
اتفاقاً کہیں مل جائے تو روتا نہ ملے

تم دعا کرتے رہو میرا سفر اچھا رہے
کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے

مجھ کو دیکھا تو مجھے ایسے لپٹ کر روئی
جیسے اک ماں کو کوئی گمشدہ بچہ نہ ملے

بددعا ہے کہ وہاں آئیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو بیٹھا نہ ملے

افکار علوی

Leave a Comment

تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا ، میری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہ سکا نہ تُو سُن سکا ، مِیری بات بیچ میں رہ گئی

میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

تیرے شہر میں میرے ھم سفر، وہ دُکھوں کا جمِّ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

وہ جو خواب تھے میرے سامنے، جو سراب تھے میرے سامنے
میں اُنہی میں ایسے اُلجھ گیا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

عجب ایک چُپ سی لگی مجھے، اسی ایک پَل کے حِصار میں
ھُوا جس گھڑی تیرا سامنا، میری بات بیچ میں رہ گئی

کہیں بے کنار تھی خواھشیں، کہیں بے شمار تھی اُلجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ھجوم تھا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

تھا جو شور میری صداؤں کا، مِری نیم شب کی دعاؤں کا
ہُوا مُلتفت جو میرا خدا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

تیری کھڑکیوں پہ جُھکے ھوئے، کئی پھول تھے ھمیں دیکھتے
تیری چھت پہ چاند ٹھہر گیا ، میری بات بیچ میں رہ گئی

میری زندگی میں جو لوگ تھے، مِرے آس پاس سے اُٹھ گئے
میں تو رہ گیا اُنہیں روکتا ، مِری بات بیچ میں رہ گئی

ِِتِری بے رخی کے حِصار میں، غم زندگی کے فشار میں
میرا سارا وقت نکل گیا، مِری بات بیچ میں رہ گئی

مجھے وھم تھا ترے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں میری
سو حقیقتاً بھی وھی ھُوا، میری بات بیچ میں رہ گئی

امجد اسلام امجد

Leave a Comment
%d bloggers like this: