Skip to content

Month: June 2020

تسبیح دے اِک اِک دانے تے

تسبیح دے اِک اِک دانے تے
تُوں یار دا وِرد پکؤندا رو
او رُسیاء آپّے مَن جائے گا
تُوں اپنا فرض نِبہوندا رو

تُوں دِل دے شیشے وِچ رکھ لے
تصویراں اپنے یار دیاں
تُوں مار کے چاتی اپنے وِچ
نِت یار دا درشن پاؤندا رو

چھڈ چُھوٹے وِرد وظیفے نُوں
اودے عِشق دا قاعدہ پڑھیا کر
جگ پانویں کافر کیندا رئے
تُوں ایہو سبق پکؤندا رو

او بولے پانویں نہ بولے
اے مرضی اودے دِل دی اے
سِر رکھ کے یار دے قدماں تے
تُوں سجناں سِیس نوؤندا رو

جئے بندیا تُوں کُج کھٹنا اے
بس اِک دا ہو جا چُپ کر کے
تُوں لگ کے آکھے لوکاں دے
ناں ایویں وقت گواؤندا رو

جئے تک لیا سوھنے اِک واری
تینوں منزل مِل جائے گی
تُوں اَتھرو اودیاں یاداں دے
نِت اکھیاں وِچ سجؤندا رو

Leave a Comment

یہ کیا کہ سب سے بیاں , دل کی حالتیں کرنی

یہ کیا کہ سب سے بیاں , دل کی حالتیں کرنی
فراز !! تجھ کو نہ آئیں , محبتیں کرنی

یہ قرب کیا ھے ، کہ تُو سامنے ھے اور ھمیں ؟؟
شمار ابھی سے جدائی کی ، ساعتیں کرنی

کوئی خدا ھو کے پتھر ، جسے بھی ھم چاھیں
تمام عمر اُسی کی عبادتیں کرنی

سب اپنے اپنے قرینے سے ھیں منتظر اُس کے
کسی کو شکر ، کسی کو شکائتیں کرنی

ھم اپنے دل سے ھیں مجبُور ، اور لوگوں کو
ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی

ملیں جب اُن سے تو ، مبہم سی گفتگو کرنی
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی

یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباھتے ھیں ؟؟
ھمیں تو راس نہ آئیں ، محبتیں کرنی

کبھی فراز ، نئے موسموں میں رو دینا
کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی

احمد فراز

Leave a Comment

پلٹ کے آئے تو سب سے پہلے تجھے ملیں گے

پلٹ کے آئے تو سب سے پہلے تجھے ملیں گے
اُسی جگہ پر جہاں کئی راستے ملیں گے

تجھے یہ سڑکیں مرے توسط سے جانتی ہیں
تجھے ہمیشہ یہ سب اشارے کھلے ملیں گے

اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے

نہ جانے کب تیری آنکھیں چھلکیں گی میرے غم میں
نہ جانے کس دن مجھے یہ برتن بھرے ملیں گے

ہمیں بدن اور نصیب دونوں سنوارنے ہیں
ہم اس کے ماتھے کا پیار لے کر گلے ملیں گے

تُو جس طرح چوم کر ہمیں دیکھتا ہے حافی
ہم ایک دن تیرے بازوؤں میں مرے ملیں گے

تہذیب حافی

Leave a Comment

اشتیاقِ دید تھا آخر اُدھر جانا پڑا

اشتیاقِ دید تھا آخر اُدھر جانا پڑا
اُن کی محفل میں بہ اندازِ نظر جانا پڑا

محو کرکے رنج و رسوائی کا ڈر جانا پڑا
تیرے کوچے میں نہ جانا تھا مگر جانا پڑا

عقل نے روکا بھی، دل تھا فتنہ گر، جانا پڑا
بے بُلائے بھی کچھ انسانوں کے گھر جانا پڑا

سیر گل کا مرحلہ تھا دام ہمرنگ زمیں
لے چلی باد صبا ہم کو جدھر جانا پڑا

اول اول تو رہی دل سے مرے بیگانگی
آخر آخر اُن کو شیشے میں اتر جانا پڑا

مسکرانے کی سزا ملنی تھی صحن باغ میں
پھول کی ایک ایک پتی کو بکھر جانا پڑا

در بدر پھرنے سے بہتر ہے کہیں کے ہو رہیں
ہم چلے جائیں گے اُس در تک، اگر جانا پڑا

بے رُخی اُن کی مسلسل دیکھ کر آخر نصیر
بزم سے اُٹھ کر ہمیں با چشمِ تر جانا پڑا

Leave a Comment

پیسے ہوتے تو تجھے لے کے کھلونے دیتا

پیسے ہوتے تو تجھے لے کے کھلونے دیتا
ورنہ کیا میں میرے بچے تجھے رونے دیتا

ہونٹ پر رکھتا ھے انگشتِ شہادت ایسے
بات میری وہ مکمل نہیں ہونے دیتا

ھے تو مفلس وہ مگر اپنی دوائی پہ کبھی
خرچ احباب کے پیسے نہیں ہونے دیتا

میرے بیٹے ! کوئی چارہ ھی نہیں تھا ورنہ
اپنے حصے کے تجھے بوجھ نہ ڈھونے دیتا

دکھ بھی دیتا ھے تو دیتا ھے قیامت کے مجھے
اور میری آنکھ بھی گیلی نہیں ہونے دیتا

بیٹیوں کا کبھی گھر بار نہ اجڑے قیصر
یہ وہ دکھ ھے جو نہیں باپ کو سونے دیتا

Leave a Comment

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش
افلاک پہ جتنے بھی ستارے ہیں کم و بیش

اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش

وه جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے
ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش

موسم کی گھٹن ہو کہ زمانے کا چلن ہو
سب تیرے بچھڑنے کے اشارے ہیں کم و بیش

یہ آنکھیں اگر ہیں تو بہت کم ہیں یہ آنکھیں
ہر سمت یہاں تیرے نظارے ہیں کم و بیش

سب عشق میں اندازے غلط نکلے ہمارے
جو شرط لگائی ہے وه ہارے ہیں کم و بیش

اس گھر کی فضا نے مجھے مانا نہیں اب تک
پینتیس برس جس میں گزارے ہیں کم و بیش

جمال احسانی

Leave a Comment

آج تنہائی ، کسی ھمدمِ دیریں کی طرح

آج تنہائی ، کسی ھمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ھے ، میری ساقی گری شام ڈَھلے
منتظر بیٹھے ھیں ھم دنوں ، کہ مہتاب اُبھرے
اور تیرا عکس جَھلکنے لگے ، ھر سائے تلے

“فیض احمّد فیض”

Leave a Comment
%d bloggers like this: