Skip to content

Tag: Ehsan Danish

Ehsan Danish

حیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے

حیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے
جو ذرّہ جَگمگاتا ہے مِرا دِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں یَقین و بےیَقینی کے دَوراہے پر
ہنسی کیسی مُجھے رونا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
وہ آغازِ جَفا تھا دَرد سے دِل کو شِکایَت تھی
یہ اَنجامِ وفا ہے دَرد بھی دِل ہوتا جاتا ہے
کہاں پہنچا دیا مُجھکو مِرے ضَبط و تَحَمُّل نے
کہ ہر ساعَت فُسُونِ حُسنِ باطِل ہوتا جاتا ہے
مُجھے اے کاش تیری بےرُخی مایُوس کر دیتی
یہ آساں کام بھی کِس دَرجہ مُشکِل ہوتا جاتا ہے
تُجھے تَو ناز تھا ساحِل پہ طُوفاں آشنائ کا
یہ کیوں سُبک سارانِ ساحِل ہوتا جاتا ہے
انوکھا جال پھیلایا ہے تاثِیرِ محبَّت نے
وہ جَلوَہ بھی شِکارِ جَذبِ کامِل ہوتا جاتا ہے
یہ کیا سمجھا رہے ہو تُم مِرے پَردے میں مَحفِل کو
مِرا رَنگِ تَغَیُّر رَنگِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
نَوِیدِ قُربِ مَنزِل دے رہے ہیں قافلے والے
دِلِ اِیذا طَلَب بیزارِ مَنزِل ہوتا جاتا ہے
مَیں جِس رَفتار سے طُوفاں کی جانِب بڑھتا جاتا ہُوں
اُسی رَفتار سے نزدِیک ساحِل ہوتا جاتا ہے
حُضُوری میں بھی بیتابی ہے دُوری میں بھی بیتابی
سُکُونِ دِل بہرِ تَقدِیر مُشکِل ہوتا جاتا ہے
سِتارے ڈُوبتے جاتے ہیں شمعیں بُجھتی جاتی ہیں
مُرَتّب خودبخود اَنجامِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں مکان و لامکاں ہیں دو قدَم لیکِن
مُجھے یہ دو قدَم چلنا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
بہت دِن سر دُھنا ہے جُرمِ آغازِ محبَّت پر
اور اَب اَنجام سے احسانؔ غافِل ہوتا جاتا ہے
احسان دانش

Leave a Comment

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی​

بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی​
قسمت میں مری اتنے کہاں تھے ترے غم بھی​

جس لغزش آدم سے خلافت ہے مزین​
اس جوش محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی​

اہلوں کے مقامات پہ نا اہل ہیں فائز​
گھٹتا ہے اب اس شہر تمدن میں تو دم بھی​

آ جائے میسر جو کوئی ڈھب کا خریدار​
ہم لوگ تو بک جاتے ہیں بے دام و درم بھی​

یہ بات غلط شہر میں تم سے ہیں ہزاروں
اے جان طرب آج تو نایاب ہیں ہم بھی​

پہلے تو اعزا مرے رونے پہ ہنسے ہیں
دنیا پہ گزرتا ہے گراں اب ترا غم بھی​

انسان کی کیا بات ہے پتھر کی سلوں پر​
محفوظ ابھی تک ہیں کئی نقش قدم بھی​

لازم ہے کہ شایان تجلی ہوں نگاہیں​
ہونے کو تو یوں طالب دیدار ہیں ہم بھی​

اس شہر میں چلتی نہیں اخلاق کی راہیں​
اس دور میں ناپید ہیں ارباب ہمم بھی​

ڈر ہے کہیں اس کو بھی نہ اپنا لے زمانہ​
محدود ابھی تو ہے ہمیں تک ترا غم بھی​

حیرت ہے کہ رکتے ہیں جہاں زیست کے رہرو​
کہتے ہیں اسی قریہ ہستی کو عدم بھی​

شام آئی سمندر میں چلا ڈوبنے سورج​
اک روز ترے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی​

دیوانے اگر جھانجھ میں کہہ دیں گے کوئی بات​
رہ جائیں گے منہ دیکھ کے قرطاس و قلم بھی​

تو نے کبھی اس راز کو سوچا ہے نہ سمجھا​
ہیں تیرے تعاقب میں ترے نقش قدم بھی​

ہر چند کہ شکوہ ہے غم ہجر کا لیکن​
جینے میں معاون ہے ترے ہجر کا غم بھی​

تاریک شبوں میں بھی کئی غار تھے روشن​
اے کاش وہ خوش کام سماں دیکھتے ہم بھی​

میں مسند و اورنگ سے غافل تو نہیں ہوں​
ہے میری نظر میں ترا معیار کرم بھی​

لبریز کیا ہے تو سنبھالو ہمیں ورنہ​
شیشے کی طرح گر کے بکھر جائیں گے ہم بھی​

تشخیص مرض چارہ گرو سوچ سمجھ کر​
ہوتا ہے مجھے درد کی تخفیف کا غم بھی​

تم لوگ زباں دے کے بھی پھر جاتے ہو اکثر​
ہم لوگ نبھا دیتے ہیں بے قول و قسم بھی​

کل رات سے سینہ میں وہی پہلی خلش ہے​
اب ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے بھرم بھی​

جو سینہ سپر عرصہ ہستی میں ہیں دانش
دشوار نہیں ان کے لیے راہ عدم بھی​

احسان دانش

Leave a Comment

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے

ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے

زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
ایک بے جرم سزا ہو جیسے

احسان دانش

Leave a Comment
%d bloggers like this: