Skip to content

Tag: Komal Joya

Komal Joya

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام
بہار ، پیڑ ، ہوا ، رنگ ، پھول ، بیل ، تمام

ابھی تو دل بڑا سینے میں رعب جھاڑتا ہے
اِدھر یہ دھڑکنیں بگڑیں اُدھر یہ کھیل تمام

وہ جن فضاؤں میں لیتا تھا سانس میں بھی وہیں
اس اشتراک سے قائم تھا تال میل تمام

تجھے ہی شوق تھا ہر تجربہ کیا جائے
سو اب یہ ہجر کی وحشت بدن پہ جھیل تمام

یہ زندگی مجھے سارے سبق سکھاتی رہی
میں ایک پاس ہوئی امتحاں میں ، فیل ، تمام

نشانہ باندھنے والو ، خدا کا خوف کرو
اڑا بھی سکتی ہے پنچھی مِرے ، غلیل تمام

کومل جوئیہ

Leave a Comment

سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی

سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی
تمہارے ہجر کی تقریبِ رونمائی کی

مجھے تو کھا گیا عفریت عشق کا لیکن
جہاں بھی بس چلا ، لوگوں کی راہنمائی کی

شفائے کاملہ کی آس گھٹتی جاتی ہے
بڑھائی جاتی ہے مقدار جب دوائی کی

تمہاری شکل بھی یوسف سے کم نہیں ، اک دن
کھلے گی تم پہ حقیقت تمہارے بھائی کی

وہ دیوتا تو نہیں تھا مگر محبت میں
تمام عمر مرے زعم پر خدائی کی

میں چیخ چیخ کے کہتی ہوں قید رہنے دو
نکالتا ہے وہ صورت اگر رہائی کی

کشید کرتے تھے لذت گناہ گاری سے
قسم اٹھاتے ہوئے لوگ پارسائی کی

تمہیں جہاں پہ بچھڑنا ہو تم بچھڑ جانا
تمہارے پاس سہولت ہے بے وفائی کی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی
اک عمر ہم نے اپنی معیت میں کاٹ دی

جس کال کی برس ہا برس سے تھی منتظر
وہ اپنی جلد باز طبیعت میں کاٹ دی

اپنی نہیں چلائیں کبھی خود پہ مرضیاں
بس زندگی خدا کی مشئیت میں کاٹ دی

اس بدگمان شخص کی پہلے پہل سنی
جب بات بڑھ گئی تو اذیت میں کاٹ دی

سوچا کہ میرا کون ہے جس کے لیے لکھوں ؟
تحریر جو لکھی تھی وصیت میں ، کاٹ دی

نیت پہ انحصار تھا اعمال کا سو ، عمر
ہم نے ترے حصول کی نیت میں کاٹ دی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

قلم ، کاغذ ، تخیل اور کتابیں بیچ سکتی ہوں

قلم ، کاغذ ، تخیل اور کتابیں بیچ سکتی ہوں
پڑی مشکل تو گھر کی ساری چیزیں بیچ سکتی ہوں

مجھے قسطوں میں اپنی زندگی نیلام کرنی ہے
میں بھر بھر کے غباروں میں یہ سانسیں بیچ سکتی ہوں

پرندوں سے مرا جھگڑا ہے ، ان کے گھر اجاڑوں گی
اگر یہ پیڑ میرا ہے میں شاخیں بیچ سکتی ہوں

مرے کاسے میں بھی خیرات پڑ جائے محبت کی
سنو درویش کیا میں بھی دعائیں بیچ سکتی ہوں ؟

تمہارے بعد اب کس کو بصارت کی طلب ہوگی ؟
مناسب دام مل جائیں تو آنکھیں بیچ سکتی ہوں

بتائیں مفتیانِ علم و دانش میرے بچوں پر
اگر فاقہ مسلط ہو ، میں غزلیں بیچ سکتی ہوں ؟

کومل جوئیہ

Leave a Comment

تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے

تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے
میں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہے
ادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب
پرانے زخم سے رستے لہو کا مسئلہ ہے
بہت سے بد نظر آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں
مرا نہیں یہ ہر اک خوبرو کا مسئلہ ہے
تمہاری بزم میں ہر رنگ کے مسائل ہیں
کہیں پہ چپ ، تو کہیں گفتگو کا مسئلہ ہے
ہمیں تو اور بھی کارِ جہاں میسر ہیں
ہر ایک شخص سے نفرت عدو کا مسئلہ ہے
یہ کھیل دیکھنا ناکام ہونے والا ہے
تماشہ گاہ میں جو ہاؤ ہو کا مسئلہ ہے
ذرا سا نیند کی چادر میں چھید دیکھا ہے
سو اہلِ خواب کو تب سے رفو کا مسئلہ ہے
کومل جوئیہ

Leave a Comment

یہ مری ضد ہے کہ ملتان نہیں چھوڑوں گی

یہ مری ضد ہے کہ ملتان نہیں چھوڑوں گی
مر تو جاؤں گی تری جان نہیں چھوڑوں گی
عشق لایا تھا مجھے گھیر کے اپنی جانب
اس منافق کا گریبان نہیں چھوڑوں گی
یہ تو ترکہ ہے جو پرکھوں سے ملا ہے صاحب
دشت کو بے سرو سامان نہین چھوڑوں گی
یہ نہ ہو سین بدلتے ہی بچھڑ جائے تو
ہاتھ میں خواب کے دوران نہیں چھوڑوں گی
اب نہ کمزور ہوں میں اور نہ ڈرنے والی
دشمنا ! ہار کے میدان نہیں چھوڑوں گی
اے خوشی ! پھر تو صدا دے کے کہیں چھپ گئی ہے
ہاتھ تو لگ ، میں ترے کان نہیں چھوڑوں گی
صرف اس بار اگر وصل عطا ہو جائے
پھر کبھی ہجر کا امکان نہیں چھوڑوں گی
کومل جوئیہ

Leave a Comment

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں

تو علم ہوتا ہے سانپ بچھو پلے ہوئے تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں

تمہارا چہرہ ، تمہارے رخسار و لب سلامت
کہ ہم تو حسرت سے ان خزینوں کو دیکھتے ہیں

بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر
گزشتہ سالوں ، دنوں ، مہینوں کو دیکھتے ہیں

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو اجڑے ہوئے مسافر
تمہارے پاؤں سے روندے زینوں کو دیکھتے ہیں

کبھی یہ دیکھا تماشہ گاہوں کے کچھ مداری
عجیب دکھ سے تماش بینوں کو دیکھتے ہیں

پرانی تصویر ، ڈائری اور چند تحفے
بڑی اذیت سے روز تینوں کو دیکھتے ہیں

کومل جوئیہ

Leave a Comment

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے
یہ غلط فہمی رہی ہم کو ، ہمارا کوئی ہے

یہ جو بہتے ہوئے لاشے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ؟
بول دریائے ستم تیرا کنارہ کوئی ہے ؟

بس ہوا ملتے ہی ہر یاد بھڑک اٹھتی ہے
یوں سمجھ راکھ کے اندر بھی شرارا کوئی ہے

کوئی دستک ہی نہ تھی اور نہ “میں ہوں” کی صدا
میں نے چوکھٹ پہ کئی بار پکارا ، کوئی ہے ؟

تو جو عامل ہے تو پھر توڑ بتا وحشت کا
اس محبت کی اذیت کا اتارا کوئی ہے ؟

آج کل تم بھی اکیلے ہو سنا ہے میں نے
تم تو کہتے تھے مرے بعد تمہارا کوئی ہے

کومل جوئیہ

Leave a Comment

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں
میری مرضی ، میں کسی بات کی پابند نہیں

اپنے ہاتھوں کے اشاروں پہ چلاتی ہے ہمیں
زندگی حکم و ہدایات کی پابند نہیں

جن میں انسان کو کھا جائے فقط نام و نمود
ایسی فرسودہ روایات کی پابند نہیں

تیرے کہنے پہ چلی آؤں ، یہ امید نہ رکھ
میں ترے شوقِ ملاقات کی پابند نہیں

حبس بڑھتا ہے تو پھر رنگ سخن دیکھا کر
شاعری موسمِ برسات کی پابند نہیں

چھلنے لگتے ہیں مرے زخم سحر دم کومل
اب وہ وحشت ہے کہ جو رات کی پابند نہیں

کومل جوئیہ

Leave a Comment
%d bloggers like this: