Skip to content

Category: Naat Poetry

This category will contains naats poetry

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

تو کسی کو بھی اُٹھاتا نہیں اپنےدَر سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وُسعتِ صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

یہ تیرا کام ہے اے آمِنہ کے دُرِّ یتیم
ساری اُمَّت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا

میں ہُوں بے کس تیرا شَیوا ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

چاند کی طرح تیرے گِرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ ٕ اصحاب میں بیٹھا کرنا

اُن صحابہ کی پُر اطوار نِگاہوں کو سلام
جنکا مسلک تھا طوافِ رُخِ زَیبا کرنا

کوٸی فاوق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دِل کی دُنیاکو نظر سے تہ و بالا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیر اُنکی نظر پڑ ہی گٸی
کہنے والے اِسے کہتے ہیں خُدا کا کرنا

پیر نصیرُ الدین نصیر

Leave a Comment

شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

بیٹھا ہوں رخت باندھ کے ، ساعت سحر کی ہے
رونق عجیب شہرِ بریلی میں گھر کی ہے
سب آکے پوچھتے ہیں عزیمت کدھر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

شوط و طواف و سعی کے نکتے سکھا دئیے
احرام و حلق و قصر کے معنٰی بتا دئیے
رمی و وقوف و نحر کے منظر دکھا دئیے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصلِ مراد حاضری اس پاک در کی ہے

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جاں وار دوں یہ کام جو میرا صبا کرے
بعد از سلامِ شوق یہ پیش التجا کرے
کہتا ہے اک غلام کسی شب خدا کرے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

سب جوہروں میں اصل ترا جوہرِ غنا
اس دھوم کا سبب ہے تری چشمِ اعتنا
ممنون تیرے دونوں ہیں ، بانی ہو یا بِنا
ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و مِنٰی
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

ہے دفترِ نسب میں یہ عزت لکھی ہوئی
قرطاسِ وقت پر ہے یہ خدمت لکھی ہوئی
پُشتوں سے گھر میں ہے یہ عبارت لکھی ہوئی
میں خانہ زادِ کہنہ ہوں ، صورت لکھی ہوئی
بندوں‌کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے

ہر لمحہ آشنائے تب و تاب ہوگی آب
دنیائے آبرو میں دُرِ ناب ہوگی آب
ان کا کرم رہا تو نہ بے آب ہوگی آب
دنداں کا نعت خواں ہوں ، نہ پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

دم گُھٹ رہا تھا محبسِ قالب میں بے ہوا
تھا ملتجی نصیر کہ یارب چلے ہوا
اتنے میں‌ دی سروش نے آواز ، لے ہوا
سنکی وہ دیکھ ! بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا ترے دامانِ تر کی ہے

Leave a Comment

میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے

میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں ترا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے

نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تری
نہ تری مدح ہے ممکن ترے خیالوں سے

تُو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے

ترا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے

یہ افتخار ہے ترا کہ میرے عرش مقام
تُو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے

مگر یہ مفتی یہ واعظ یہ محتسب یہ فقیہہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے

خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے

ہے تُرش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

میں بے بساط سا شاعر ہُوں پر کرم ترا
کہ باشرف ہُوں قبا و کلاہ والوں سے

Leave a Comment

حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے

حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے
کیا چاند کی تنویر ستاروں میں چھنی ہے

کہدے میرے عیسٰی سے مدینے میں یہ کوئی
اب جان پہ بیمارِ مَحَبّت کے بنی ہے

محبوب کو بے دیکھے ہوئے لوٹ رہے ہیں
عشّاق میں کیا رنگِ اویسِ قرنی ہے

گھر سے کہیں اچھا ہے مدینے کا مسافر
یاں صبحِ وطن شامِ غریب الوطنی ہے

معراج میں حوروں نے جو دیکھا تو یہ بولیں
کس نوک پلک کا یہ جوانِ مدنی ہے

اِک عمر سے جلتا ہے مگر جل نہیں چکتا
کس شمع کا پروانہ اویسِ قرنی ہے

عشاق سے پوچھے نہ گئے حشر میں اعمال
کیا بگڑی ہوئی بات مَحَبّت سے بنی ہے

یاد احمدِ مختار کی ہے کعبہِ دل میں
مکے میں عیاں جلوہِ ماہِ مدنی ہے

کس شوق سے جاتے ہیں مدینے کے مسافر
محبوب وطن سے کہیں یہ بے وطنی ہے

کہتا ہے مسافر سے یہ ہر نخلِ مدینہ
آرام ذرا لے لو یہاں چھاؤں گھنی ہے

آغوشِ تصور میں بھی آنا نہیں ممکن
حوروں سے بھی بڑھ کر تری نازکبدنی ہے

اللہ کے محبوب سے ہے عشق کا دعوٰی
بندوں کا بھی کیا حوصلہ اللہ غنی ہے

آنکھوں سے ٹپکتا ہے مری رنگِ اویسی
جو لختِ جگر ہے وہ عقیقِ یمنی ہے

میں اس کے غلاموں میں ہوں جو سب کا ہے آقا
سردارِ رسل سیّدِ مکی مدنی ہے

اعدا نے جہاں مانگی اماں رُک گئی چل کر
شمشیرِ حُسینی میں بھی خلقِ حَسَنی ہے

ہر دل میں ہے محبوبِ الٰہی کی تجلی
ہر آئینے میں عکسِ جمالِ مدنی ہے

مقتل ہے چمن نعش پہ حوروں کا ہے مجمع
کیا رنگ میں ڈوبی مری خونیں کفنی ہے

پہنچی ہیں کہاں آہیں اویسِ قرنی کی
باغوں میں مدینے کے ہوائے یمنی ہے

کچھ مدح پڑھوں روضہِ پُر نُور پہ چلکر
یہ بات امیؔر اب تو مرے دل میں ٹھنی ہے

Leave a Comment

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ھے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ھے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ھے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ھے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ھے سایہ تیرا

تو بشر بھی ھے مگر فخرِ بشر بھی تو ھے
مجھ کو تو یاد ھے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ھے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ھے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ھے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ھے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ھے مسجدِ اقصی تیرا

Leave a Comment

اے مدینے کے تاجدار تجھے

اے مدینے کے تاجدار تجھے ، اہل ایماں سلام کہتے ہیں
تیرے عُشّاق تیرے دیوانے ، جان جاناں سلام کہتے ہیں

تیری فرقت میں بے قرار ہیں جو ، ہجر طیبہ میں دل فگار ہیں جو
وہ طلبگار دید رو رو کر ، اے مری جاں سلام کہتے ہیں

جن کو دنیا کے غم ستاتے ہیں ٹھوکریں در بدر جو کھاتے ہیں
غم نصیبوں کے چارہ گر تم کو ، وہ پریشاں سلام کہتے ہیں

عشق سرور میں جو تڑپتے ہیں حاضری کے لئے ترستے ہیں
اذن طیبہ کی آس میں آقا ، وہ پُر ارماں سلام کہتے ہیں

تیرے روضے کی جالیوں کے قریب ساری دنیا سے میرے سرور دیں
کتنے خوش بخت روز آ آ کر ، تیرے مہماں سلام کہتے ہیں

دور دنیا کے رنج و غم کر دو اور سینے میں اپنا غم بھر دو
سب کو چشمان تر عطا کر دو ، جو مسلماں سلام کہتے ہیں

اے مدینے کے تاجدار تجھے اہل ایماں سلام کہتے ہیں
تیرے عُشّاق تیرے دیوانے جان جاناں سلام کہتے ہیں

Leave a Comment

الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​

الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے​
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے​

بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو​
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے​

مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو​
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے​

الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو​
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے​

نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے​
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے​

معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے​
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے​

زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو​
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے​

خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو​
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے​

اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو​
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے​

ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری​
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے​

ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی​
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے​

Leave a Comment

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات
مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری دنیا کا ہے پالن ہار تُو
محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے
مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور
رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے
منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا
کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے
ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔ کی بھی آسان کر
اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

Leave a Comment

حضورﷺ ایسا کوئی انتظام ہو جائے

حضورﷺ ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کےلیےحاضر غلام ہو جائے

خداکرےکہ مدینہ پاک کاھوسفرہر سال
ھماری عمراسی میں تمام ھوجاٸے

میں صرف دیکھ لوں اک بار صبح طیبہ کو
بلا سےپھر مری دنیا میں شام ہو جائے

تجلیات سےبھر لوں میں کاسئہ دل و جاں
کبھی جو اُن کی گلی میں قیام ہو جائے

حضور ﷺآپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے

حضورﷺ آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل
سمٹ کےفاصلہ یہ چند گام ہو جائے

ملےمجھےبھی زبان بوصیری و جامی
مرا کلام بھی مقبول عام ہو جائے

مزا تو جب ہےفرشتےیہ قبر میں کہہ دیں
صبیح! مدحتِ خیر الانام ہو جائے

(صلی اللہ علیہ وسلم)

Leave a Comment

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی وہ ترا غبارِ جمال ہے

وہاں فاصلوں کی زیادتی سے عنایتوں میں کمی نہیں
کوئی دور رہ کے اویسؔ ہے کوئی پاس رہ کے بلالؔ ہے

رواں ندیاں رمِ آہواں زمیں آسماں نہیں سب جہاں
تری رحمتوں کے طفیل ہیں کہ زوال جن کا محال ہے

تراروضہ ہے میرے سامنے مگر اپنی شکل دکھاؤں کیا
یہ میں کس مقام پہ آگیا کہ نہ ہجرہے نہ وصال ہے

جو عطا پہ روز خطا کرے جو خطا پہ روز عطاکرے
ترے پاس میری مثال ہے مرے پاس تیری مثال ہے

دلِ عاشقاں جو نڈھال ہیں ذرا آپ ان کو سنبھال لیں
یہ کسی کے بوتے کی شے نہیں کہ یہ آپ ہی کا تو مال ہے

وہ خدا کے نور کو دیکھ کر بھی زمین والوں میں آگئے
سرِ عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے

ذرا سِدرہ والے سے پوچھنا کہ مقامِ مصطفوی ہے کیا
جہاں جبرئیل کے پر جلیں وہ مقام ایسی مثال ہے

رہِ حق میں سردیا جان دی مگر اپنا ہاتھ نہیں دیا
جو حسینؓ ابن علیؓ نے دی کیا جہاں میں ایسی مثال ہے

میری آرزوئیں بڑھی ہوئیں کہ مدینے میرا قیام ہو
میرے حوصلوں کا شمار کیا تیری رحمتوں سے سوال ہے

تیرے درتلک بھی میں آگیا ابھی زندہ ہوں کہ ہوں بے حیا
مگر اپنی جان کا کیا کروں میری جان مجھ پہ وبال ہے

میں حدوُدِ طبیہ تک آگیا تِیرے درتلک نہیں آؤنگا
تیرے سامنے میراحال ہے میرے سامنے یہ سوال ہے

تری یاد دل میں محیط ہے مجھے اور سمت پتہ نہیں
نہ توشرق ہے نہ توغرب ہے نہ جنوب ہے نہ شمال ہے

میں تمہارے نام کی نسبتوں کے سہارے دنیا میں جی گیا
مجھے اپنا دیدار کروا دو اب میری عاقبت کا سوال ہے

ارے زار اشرفِؔ ناتواں کہاں نعت تیرا بیاں کہاں
ترا حق تھا تو نے اٹھالیا یہ رضاؔ کے توشے کا مال ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: