Skip to content

Tag: Peer Naseer

Peer Naseer

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

تو کسی کو بھی اُٹھاتا نہیں اپنےدَر سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وُسعتِ صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

یہ تیرا کام ہے اے آمِنہ کے دُرِّ یتیم
ساری اُمَّت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا

میں ہُوں بے کس تیرا شَیوا ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

چاند کی طرح تیرے گِرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ ٕ اصحاب میں بیٹھا کرنا

اُن صحابہ کی پُر اطوار نِگاہوں کو سلام
جنکا مسلک تھا طوافِ رُخِ زَیبا کرنا

کوٸی فاوق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دِل کی دُنیاکو نظر سے تہ و بالا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیر اُنکی نظر پڑ ہی گٸی
کہنے والے اِسے کہتے ہیں خُدا کا کرنا

پیر نصیرُ الدین نصیر

Leave a Comment

ہمیں جب کہ اپنا بنا لیا، تو ہے ربط کِس لیے ہم سے کم

ہمیں جب کہ اپنا بنا لیا، تو ہے ربط کِس لیے ہم سے کم
یہ حجاب کیا، یہ گریز کیوں، رہیں سامنے تو وہ کم سے کم

غمِ آرزو، غمِ جُستجُو، غمِ امتحاں، غمِ جسم و جاں
مری زندگی کی بساط کیا، مِری زندگی تو ہے غم سے کم

یہ مقامِ ناز و نیاز ہے، مِرا دل ہی محرمِ راز ہے
وہ نوازتے ہیں بہ مصلحت، ہمیں التفات و کرم سے کم


ترے آستاں کا فقیر ہُوں، مگر آپ اپنی نظِیر ہُوں
مری شانِ فقر جہان میں، نہ مِلے گی شوکتِ جَم سے کم

یہ کہا گیا، یہ سُنا گیا، یہ لکھا گیا، یہ پڑھا گیا
نہ جفا ہوئی کبھی تم سے کم، نہ وفا ہوئی کبھی ہم سے کم

وہی نسبتیں، وہی رفعتیں، وہی رونقیں، وہی عظمتیں
مرے دل میں جب سے وہ ہیں مکیں، نہیں یہ مکاں بھی حرم سے کم

ترے اَبرُوؤں کی حسِیں کماں، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قُزَاح سے کم، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے، نہ رُلا مجھے، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے، تری کائناتِ ستم سے کم


یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اُس نے مئے سُخن
مجھے پاس اپنے بُلا لیا، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں جس میں تیری تجلّیاں، اُسے جانچتی ہے نظر کہاں
ترے نُور کا نہ ظہُور ہو، تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی اِنعکاسِ جمال ہے، کبھی عینِ شَے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ، کسی آئینے کے بھرم سے کم


مہ و آفتاب و نجوم سب، ہیں ضیا فگن، نہیں اس میں شک
ہے مُسَلَّم ان کی چمک دَمک، مگر اُنؐ کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزُو، یہی مُدّعا، کبھی وقت ہو تو سُنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم، جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیرؔ دفترِ راز ہے، یہ غبارِ راہِ نیاز ہے
کریں اِس پہ اہلِ جہاں یقیں، نہیں اِس کا قول، قسم سے کم

Leave a Comment

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے

بس یہی سوچ کے پہروں نہ رہا ہوش مجھے
کر دیا ہو نہ کہیں تُو نے فراموش مجھے

تیری آنکھوں کا یہ میخانہ سلامت ساقی
مست رکھتا ہے ترا بادہ ء سرجوش مجھے

ہچکیاں موت کی آنے لگیں اب تو آجا
اور کچھ دیر میں شاید نہ رہے ہوش مجھے

کب کا رسوا میرے اعمال مجھے کر دیتے
میری قسمت کہ ملا تجھ سا خطا پوش مجھے

کس کی آہٹ سے یہ سویا ہوا دل جاگ اُٹھا
کر دیا کس کی صدا نے ہمہ تن گوش مجھے

یاد کرتا رہا تسبیح کے دانوں پہ جسے
کردیا ہے اُسی ظالم نے فراموش مجھے

ایک دو جام سے نیت مری بھر جاتی تھی
تری آنکھوں نے بنایا ہے بلانوش مجھے

جیتے جی مجھ کو سمجھتے تھے جو اک بارِ گراں
قبر تک لے کے گئے وہ بھی سرِ دوش مجھے

مجھ پہ کُھلنے نہیں دیتا وہ حقیقت میری
حجلہ ء ذات میں رکھتا ہے وہ رُو پوش مجھے

صحبتِ میکدہ یاد آئے گی سب کو برسوں
نام لے لے کے مرا روئیں گے مے نوش مجھے

بُوئے گُل مانگنے آئے مرے ہونٹوں سے مہک
چومنے کو ترے مل جائیں جو پاپوش مجھے

زندگی کے غم و آلام کا مارا تھا میں
ماں کی آغوش لگی قبر کی آغوش مجھے

دے بھی سکتاہوں نصیر اینٹ کا پتھر سے جواب
وہ تو رکھا ہے مرے ظرف نے خاموش مجھے

Leave a Comment

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی

کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی

وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا
نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا
مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے
جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے
نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا
ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں
ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر
نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے
ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی

پیر نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی

مُحبت میں ہماری اشک افشانی نہیں جاتی
بھری برسات ہے دریا کی طغیانی نہیں جاتی

مصیبت ٹل نہیں سکتی پریشانی نہیں جاتی
کسی کی بھی نصیحت عشق میں مانی نہیں جاتی

جو کل تک دَیر تھا ہم نے اسے کعبہ بنا ڈالا
مگر اس پر بھی اپنی کفر سامانی نہیں جاتی

مریضِ ہجر کو اب آپ پہچانیں تو پہچانیں
فرشتے سے اجل کے شکل پہچانی نہیں جاتی

تمہارا آستاں ہے اب ہماری آخری منزل
کسی بھی در کی ہم سے خاک اب چھانی نہیں جاتی

قیامت ہے تمہارا بن سنور کے سامنے آنا
مرا کیا ذکر ، آئینے کی حیرانی نہیں جاتی

وہی خودداریاں ہیں ، تمکنت ہے ، بے نیازی ہے
فقیری میں بھی اپنی شانِ سلطانی نہیں جاتی

یہ ممکن ہے ترے کوچے میں رہ کر جان سے جائیں
مگر تا مرگ تیرے در کی دربانی نہیں جاتی

تری رنجش ہو ، تیری بے رُخی ہو ، بد گمانی ہو
بڑی مشکل سے جاتی ہے بہ آسانی نہیں جاتی

تماری ناشناسائی کا شکوہ کیا کریں تم سے
ہمیں سے جب ہماری شکل پہچانی نہیں جاتی

جنونِ عشق سے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں
بہاریں لاکھ آئیں اُنکی ویرانی نہیں جاتی

محبت تو نصیؔر ایسا طلاطم خیز دریا ہے
سفینے غرق ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

Leave a Comment

اشتیاقِ دید تھا آخر اُدھر جانا پڑا

اشتیاقِ دید تھا آخر اُدھر جانا پڑا
اُن کی محفل میں بہ اندازِ نظر جانا پڑا

محو کرکے رنج و رسوائی کا ڈر جانا پڑا
تیرے کوچے میں نہ جانا تھا مگر جانا پڑا

عقل نے روکا بھی، دل تھا فتنہ گر، جانا پڑا
بے بُلائے بھی کچھ انسانوں کے گھر جانا پڑا

سیر گل کا مرحلہ تھا دام ہمرنگ زمیں
لے چلی باد صبا ہم کو جدھر جانا پڑا

اول اول تو رہی دل سے مرے بیگانگی
آخر آخر اُن کو شیشے میں اتر جانا پڑا

مسکرانے کی سزا ملنی تھی صحن باغ میں
پھول کی ایک ایک پتی کو بکھر جانا پڑا

در بدر پھرنے سے بہتر ہے کہیں کے ہو رہیں
ہم چلے جائیں گے اُس در تک، اگر جانا پڑا

بے رُخی اُن کی مسلسل دیکھ کر آخر نصیر
بزم سے اُٹھ کر ہمیں با چشمِ تر جانا پڑا

Leave a Comment

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا

یُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا
دل ہمارا غرقِ آتش صورتِ پروانہ تھا

اک جمالِ بے تکیُف جلوہء جانانہ تھا
آنکھ جس جانب اٹھی ، ہر ذرّہ حیرت خانہ تھا

سوز سے خالی جگر تھا،غم سے دل بیگانہ تھا
عشق میں ہم نے وہ دیکھا جو کبھی دیکھا نہ تھا

جب حقیقت سے اٹھا پردہ تو یہ عُقدہ کُھلا
خواب تھا، وہمِ دوئی زخمِ خودی ،افسانہ تھا

وصل میں گنجائشِ اغیار اِتنی بھی نہ تھی
چشم و گوش و ہوش ہر اپنا وہاں بیگانہ تھا

لے کے ہم سے دین و دل ،عقل و خِرد بولا کوئی
یہ تو راہ و رسمِ اُلفت کا فقط بیعانا تھا

خانہء لیلیٰ میں تھے جنّت کے اسبابِ نِشاط
قیس کے حصّے میں تاحدِ نظر ویرانہ تھا

زندگی کے ہمسفر تھے نزع میں بھی دل کے پاس
بے کسی تھی ، یاس تھی ،ارمان تھے ، کیا کیا نہ تھا

وہ بھی کیا دن تھے کہ پیرِ میکدہ کے عِشق میں
یہ جبینِ شوق تھی، سنگِ درِ میخانہ تھا

فیصلہ دیتے ہوئے وہ بڑھ گئے حد سے نصؔیر
میں سزاوارِ سزا تو تھا ، مگر اتنا نہ تھا

پیر سید نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا
آہ کی ، آہ میں اثر نہ ہُوا

نخلِ اُمّید باروٙر نہ ہوا
جو نہ ہونا تھا، عمر بھر نہ ہُوا

اِتنا آساں نہیں کسی پہ کرم
آپ شرمائیں گے، اگر نہ ہُوا

ہم ہوئے لاکھ سب سے بیگانے
وہ نہ اپنا ہوا، مگر نہ ہُوا

جس طرف انتظار میں ہم تھے
اُس طرف آپ کا گزر نہ ہُوا

غیر گھر کر گیا تیرے دل میں
اک میرا تیرے دل میں گھر نہ ہُوا

ہم وفا کر کے بےوفا ٹھہرے
کوئی الزام تیرے سٙر نہ ہُوا

میرے حالات سے نصیرؔ اب تک
باخبر، حُسنِ بے خبر نہ ہُوا

پِیر نصیر الدّین نصیرؔ

Leave a Comment

سلسلہ ٹوٹے نہ ساقی ہوش اڑ جانے کے بعد

سلسلہ ٹوٹے نہ ساقی ہوش اڑ جانے کے بعد
مجھ کو ملتا ہی رہےپیمانہ پیمانے کے بعد

کھو دیا دنیامیں جو کچھ تھا,تجھےپانےکےبعد
جان سےجانا پڑا ھم کو,ترے آنے کے بعد

تو ہی تھا وہ شمع جس کی روشنی تھی ہرطرف
رنگ محفل میں کہاں اب تیرے اٹھ جانے کے بعد

جاؤ بیٹھو چین سے میں کیا کہوں ,تم کیا سنو
اب پشیمانی سےکیاحاصل,ستم ڈھانےکےبعد

اس کا کیا کہنا ہے! زاہد کے ٹھکانے ھیں بہت
یہ کسی مسجد میں جا بیٹھے گا , میخانے کے بعد

شمع محفل روۓیا ہنس کر گزارے صبح تک
کون اب جلنے یہاں آئے گا پروانے کے بعد

حسن رخ کی اک جھلک نے کر دیئے اوسان گم
ہوش آیا تو مگر ان کے چلے جانے کے بعد

سچ ھے کوئی بھی شریک درد و غم ہوتا نہیں
ہو گئے احباب رخصت مجھ کو سمجھانےکےبعد

اب تو کہتے ہو کہ جا میری نظر سےدور ہو
تم منانے آؤ گے مجھ کو,مرے جانے کے بعد

وحشت دل کی بدولت ہم چلے آئے یہاں
دیکھیےاب کونسی منزل ہے ویرانے کےبعد

کون روتا ہے کسی کی خستہ حالی پر نصیر
زیر لب ہنستی ھےدنیا,میرے لٹ جانے کے بعد

Leave a Comment

تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں

تیرے ابرووں‌کی حسیں‌کماں ، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قزح سے کم ، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے ، نہ رلا مجھے ، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے ، تری کائناتِ ستم سے کم

یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اس نے مئے سخن
مجھے پاس اپنے بلا لیا ، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں‌ جس میں تیری تجلیاں ، اسی جانچتی ہے نظر کہاں
تیرے نور کا نہ ظہور ہو تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی انعکاسِ جمال ہے ، کبھی عینِ شے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ ، کسی آئینے کے بھرم سے کم

مہ و آفتاب و نجوم سب ، ہیں ضیا فگن ، نہیں اس میں شک
ہے مسلم ان کی چمک دمک ، مگر اُن کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزو ، یہی مدعا ، کبھی وقت ہو تو سنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیر دفترِ راز ہے ، یہ غبار راہِ نیاز ہے
کریں‌اس پہ اہل جہاں یقیں ، نہیں اِس کا قول ، قسم سے کم

Leave a Comment
%d bloggers like this: