Skip to content

Tag: Qamar Jalalvi

Qamar Jalalvi

کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے

کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے

باغباں کچھ سوچ کہ ہم قید سے چھوٹے نہ تھے
ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار، پر ٹوٹے نہ تھے

خار جب اہلِ جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے
دامنِ صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے

رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار
کیا کریں قیدِ زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے

اس جوانی سے تو اچھی تھی تمھاری کم سنی
بھول تو جاتے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے

اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے
جب فقط ذکرِ چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے

کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا
جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے

چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر
رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے

کس قدر آنسو بہائے تم نے شامِ غم قمر
اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے

قمر جلالوی

Leave a Comment

اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا

اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا
کیا جانے گریباں ہو گا کہاں دامن سے بڑا دیوانے کا

واعظ نہ سنے گا ساقی کی لالچ ہے اسے پیمانے کی
مجھ سے ہوں اگر ایسی باتیں میں نام نہ لوں میخانے کا

کیا جانے کہے گا کیا آ کر ہے دور یہاں پیمانے کا
اللہ کرے واعظ کو کبھی رستہ نہ ملے میخانے کا

تربت سے لگا کر تا محشر سنتے ہیں کہ ملتا کوئی نہیں
منزل ہے بڑی آبادی کی رستہ ہے بڑا ویرانے کا

جنت میں پئے گا تو کیوں کر اے شیخ یہاں گر مشق نہ کی
اب مانے نہ مانے تیری خوشی ہے کام مرا سمجھانے کا

جی چاہا جہاں پر روک دیا پاؤں میں چبھے اور ٹوٹ گئے
خاروں نے بھی دل میں سوچ لیا ہے کون یہاں دیوانے کا

ہیں تنگ تیرے میکش ساقی یہ پڑھ کے نماز آتا ہے یہاں
یا شیخ کی توبہ تڑوا دے یا وقت بدل میخانے کا

ہر صبح کو آہِ سرد سے دل شاداب جراحت رہتا ہے
گر یوں ہی رہے گی بادِ سحر یہ پھول نہیں مرجھانے کا

بہکے ہوئے واعظ سے مل کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو مے خوارو
گر توڑ دیا سب جام و سبو کیا کر لو گے دیوانے کا

احباب یہ تم کہتے ہو بجا وہ بزمِ عدو میں بیٹھے ہیں
وہ آئیں نہ آئیں ان کی خوشی چرچا تو کرو مر جانے کا

اس وقت کھلے گا جس کو بھی احساسِ محبت ہے کہ نہیں
جب شمع سرِ محفل رو کر منہ دیکھے گی پروانے کا

بادل کے اندھیرے میں چھپ کر میخانے میں آ بیٹھا ہے
گر چاندنی ہو جائے گی قمر یہ شیخ نہیں پھر جانے کا

قمر جلالوی

Leave a Comment

تم تو جاں تک آ گئے

حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ھم نظر تک چاھتے تھے ، تم تو جاں تک آ گئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرھی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ھو ، ھم کارواں تک آ گئے

اُن کی پلکوں پر ستارے اپنے ھونٹوں پر ھنسی
قصہء غم کہتے کہتے , ھم کہاں تک آ گئے

اپنی اپنی جستجو ھے اپنا اپنا شوق ھے
تم ھنسی تک بھی نہ پہنچے , ھم فغاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے؟؟

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبِ خاموشیءِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آگئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وھاں تک آ تو جاؤ ، ھم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں ، انقلاب آنے کو ھے
اھلِ دل ، اندیشہء سُود و زیاں تک آگئے

قابل اجمیری

Leave a Comment
%d bloggers like this: