Skip to content

Category: Sufi Poetry

Sufi Poetry

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ھے

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ھے
تم نہیں ہو تو،کہو رات میں کون آتا ھے

ہم نہ آئیں تو خرابات میں کون آتا ھے
اور پھر ایسی گھنی رات میں کون آتا ھے

یہ مری سادہ دلی ھے کہ مٹا ہُوں تجھ پر
اے ستم پیشہ تری بات میں کون آتا ھے

چشمِ دیدار طلب،جانچ،پرکھ،دیکھ،سمجھ
سامنے تیرے حجابات میں کون آتا ھے

کُنجِ وحشت میں کہاں پرسشِ احوال کی بات
دن میں آیا نہ کوئی رات میں کون آتا ھے

سانس کی سینے میں آمد ھے کہ اُن کی آہٹ
دیکھنا دل کے مضافات میں کون آتا ھے

مل گیا اُن کو نہ آنے کا یہ حیلہ آچھا
گھر سے باہر بھری برسات میں کون آتا ھے

کون مانے گا کہ جنت تری جاگیر ہُوی
چھوڑ واعظ تری اس بات میں کون آتا ھے

دل میں تُو،،ذہن میں تُو،فکر تری،ذکر ترا
جُز ترے اور خیالات میں کون آتا ھے

مٹ گیا نقشِ دوئی عکسِ تجلی سے نصیرؔ
اب نظر آہینہء ذات میں کون آتا ھے

پیر نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا

مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا ﷺ کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا

تو کسی کو بھی اُٹھاتا نہیں اپنےدَر سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا

میں کہ ذرہ ہوں مجھے وُسعتِ صحرا دے دے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا

یہ تیرا کام ہے اے آمِنہ کے دُرِّ یتیم
ساری اُمَّت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا

میں ہُوں بے کس تیرا شَیوا ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا

چاند کی طرح تیرے گِرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ ٕ اصحاب میں بیٹھا کرنا

اُن صحابہ کی پُر اطوار نِگاہوں کو سلام
جنکا مسلک تھا طوافِ رُخِ زَیبا کرنا

کوٸی فاوق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دِل کی دُنیاکو نظر سے تہ و بالا کرنا

مجھ پہ محشر میں نصیر اُنکی نظر پڑ ہی گٸی
کہنے والے اِسے کہتے ہیں خُدا کا کرنا

پیر نصیرُ الدین نصیر

Leave a Comment

ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے

ایک گماں کا حال ہے، اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذابِ جاں سہا، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ، دَم بہ دَم، آن بہ آن، رَم بہ رَم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں، تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدمؑ و ذاتِ کبریا کَرب میں ہیں جُدا جُدا
کیا کہوں ان کا ماجرا، جو بھی ہے امتحاں میں ہے

شاخ سے اُڑ گیا پرند، ہے دلِ شامِ دردمند
صحن میں ہے ملال سا، حُزن سا سماں میں ہے

خودبھی بے اماں ہوں میں، تجھ میں بھی بے اماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم، وہ جو میری اماں میں ہے

کیسا حساب، کیا حساب، حالتِ حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے، زہر زماں زماں میں ہے

اس کا فراق بھی زیاں، اس کا وصال بھی زیاں
اِک عجیب کشمکش حلقۂ بے دِلاں میں ہے

بُود و نبُود کا حساب، میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی ”نہیں“میرے عدم کی”ہاں“میں ہے

Leave a Comment

ہمیں جب کہ اپنا بنا لیا، تو ہے ربط کِس لیے ہم سے کم

ہمیں جب کہ اپنا بنا لیا، تو ہے ربط کِس لیے ہم سے کم
یہ حجاب کیا، یہ گریز کیوں، رہیں سامنے تو وہ کم سے کم

غمِ آرزو، غمِ جُستجُو، غمِ امتحاں، غمِ جسم و جاں
مری زندگی کی بساط کیا، مِری زندگی تو ہے غم سے کم

یہ مقامِ ناز و نیاز ہے، مِرا دل ہی محرمِ راز ہے
وہ نوازتے ہیں بہ مصلحت، ہمیں التفات و کرم سے کم


ترے آستاں کا فقیر ہُوں، مگر آپ اپنی نظِیر ہُوں
مری شانِ فقر جہان میں، نہ مِلے گی شوکتِ جَم سے کم

یہ کہا گیا، یہ سُنا گیا، یہ لکھا گیا، یہ پڑھا گیا
نہ جفا ہوئی کبھی تم سے کم، نہ وفا ہوئی کبھی ہم سے کم

وہی نسبتیں، وہی رفعتیں، وہی رونقیں، وہی عظمتیں
مرے دل میں جب سے وہ ہیں مکیں، نہیں یہ مکاں بھی حرم سے کم

ترے اَبرُوؤں کی حسِیں کماں، نظر آ رہی ہے فلک نشاں
نہ کرشمہ قوسِ قُزَاح سے کم، نہ کشش ہلال کے خم سے کم

نہ ستا مجھے، نہ رُلا مجھے، نہیں اور تابِ جفا مجھے
کہ مری متاعِ شکیب ہے، تری کائناتِ ستم سے کم


یہ کرم ہے کم سرِ انجمن کہ پلائی اُس نے مئے سُخن
مجھے پاس اپنے بُلا لیا، رہی بات میری تو کم سے کم

نہیں جس میں تیری تجلّیاں، اُسے جانچتی ہے نظر کہاں
ترے نُور کا نہ ظہُور ہو، تو وجود بھی ہے عدم سے کم

کبھی اِنعکاسِ جمال ہے، کبھی عینِ شَے کی مثال ہے
نہیں میرے دل کا معاملہ، کسی آئینے کے بھرم سے کم


مہ و آفتاب و نجوم سب، ہیں ضیا فگن، نہیں اس میں شک
ہے مُسَلَّم ان کی چمک دَمک، مگر اُنؐ کے نقشِ قدم سے کم

یہی آرزُو، یہی مُدّعا، کبھی وقت ہو تو سُنیں ذرا
مری داستانِ حیاتِ غم، جو لکھی گئی ہے قلم سے کم

یہ نصیرؔ دفترِ راز ہے، یہ غبارِ راہِ نیاز ہے
کریں اِس پہ اہلِ جہاں یقیں، نہیں اِس کا قول، قسم سے کم

Leave a Comment

شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

بیٹھا ہوں رخت باندھ کے ، ساعت سحر کی ہے
رونق عجیب شہرِ بریلی میں گھر کی ہے
سب آکے پوچھتے ہیں عزیمت کدھر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

شوط و طواف و سعی کے نکتے سکھا دئیے
احرام و حلق و قصر کے معنٰی بتا دئیے
رمی و وقوف و نحر کے منظر دکھا دئیے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصلِ مراد حاضری اس پاک در کی ہے

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جاں وار دوں یہ کام جو میرا صبا کرے
بعد از سلامِ شوق یہ پیش التجا کرے
کہتا ہے اک غلام کسی شب خدا کرے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

سب جوہروں میں اصل ترا جوہرِ غنا
اس دھوم کا سبب ہے تری چشمِ اعتنا
ممنون تیرے دونوں ہیں ، بانی ہو یا بِنا
ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و مِنٰی
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

ہے دفترِ نسب میں یہ عزت لکھی ہوئی
قرطاسِ وقت پر ہے یہ خدمت لکھی ہوئی
پُشتوں سے گھر میں ہے یہ عبارت لکھی ہوئی
میں خانہ زادِ کہنہ ہوں ، صورت لکھی ہوئی
بندوں‌کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے

ہر لمحہ آشنائے تب و تاب ہوگی آب
دنیائے آبرو میں دُرِ ناب ہوگی آب
ان کا کرم رہا تو نہ بے آب ہوگی آب
دنداں کا نعت خواں ہوں ، نہ پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

دم گُھٹ رہا تھا محبسِ قالب میں بے ہوا
تھا ملتجی نصیر کہ یارب چلے ہوا
اتنے میں‌ دی سروش نے آواز ، لے ہوا
سنکی وہ دیکھ ! بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا ترے دامانِ تر کی ہے

Leave a Comment

وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں

وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں

ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھو
مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں

تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے
انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں

اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں

انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں

آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
گرنے والوں کو چہِ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں

جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کھلکھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں

تو ہے وہ بادشہِ کون و مکاں کہ مَلک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں

جس کے جلوے سے اُحُد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں

کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وَری تیرے ہی دَم کی ہے سب جلوہ گری
مَلک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں

ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپاکرتے ہیں

لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منھ میں گھل جاتا ہے شہدِ نایاب
وَجْد میں ہوکے ہم اے جاں بے تاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

لب پہ کس منھ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دل ہے الم جس کا سنائیں
ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے در پر جو مٹا کرتے ہیں

اپنے دل کا ہے انھیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انھیں کو سب کام
لو لگی ہے کہ اب اس در کے غلام چارۂ دردِ رؔضا کرتے ہیں

Leave a Comment

یہ گنبد مینائی، یہ عالم تنہائی

یہ گنبد مینائی، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی

بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالہء صحرائی

خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلہء سینائی، میں شعلہء سینائی

تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہء پیدائی، اک لذت یکتائی

غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرئہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

ہے گرمی آدم سے ہنگامہء عالم گرم
سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی

اے باد بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی

Leave a Comment

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت

ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت

سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت

پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن سے ہی فنکار کی صورت

اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

دل ہاتھ پہ رکھا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت

صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

واصفؔ کو سرِ دار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

Leave a Comment

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزاده رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاه و منصب و ثروت نہیں مجھے

اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نُما ہے شہنشاه کا ضمیر
سَوگند اور گواه کی حاجت نہیں مجھے

میں کون، اور ریختہ، ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے

سِہرا لکھا گیا زرهِ امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چاره غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے سُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاه
سودا نہیں، جُنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ، خدا گواه
کہتا ہوں سچ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے

Leave a Comment

حیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے

حیاتِ عِشق میں یُوں حُسن شامِل ہوتا جاتا ہے
جو ذرّہ جَگمگاتا ہے مِرا دِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں یَقین و بےیَقینی کے دَوراہے پر
ہنسی کیسی مُجھے رونا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
وہ آغازِ جَفا تھا دَرد سے دِل کو شِکایَت تھی
یہ اَنجامِ وفا ہے دَرد بھی دِل ہوتا جاتا ہے
کہاں پہنچا دیا مُجھکو مِرے ضَبط و تَحَمُّل نے
کہ ہر ساعَت فُسُونِ حُسنِ باطِل ہوتا جاتا ہے
مُجھے اے کاش تیری بےرُخی مایُوس کر دیتی
یہ آساں کام بھی کِس دَرجہ مُشکِل ہوتا جاتا ہے
تُجھے تَو ناز تھا ساحِل پہ طُوفاں آشنائ کا
یہ کیوں سُبک سارانِ ساحِل ہوتا جاتا ہے
انوکھا جال پھیلایا ہے تاثِیرِ محبَّت نے
وہ جَلوَہ بھی شِکارِ جَذبِ کامِل ہوتا جاتا ہے
یہ کیا سمجھا رہے ہو تُم مِرے پَردے میں مَحفِل کو
مِرا رَنگِ تَغَیُّر رَنگِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
نَوِیدِ قُربِ مَنزِل دے رہے ہیں قافلے والے
دِلِ اِیذا طَلَب بیزارِ مَنزِل ہوتا جاتا ہے
مَیں جِس رَفتار سے طُوفاں کی جانِب بڑھتا جاتا ہُوں
اُسی رَفتار سے نزدِیک ساحِل ہوتا جاتا ہے
حُضُوری میں بھی بیتابی ہے دُوری میں بھی بیتابی
سُکُونِ دِل بہرِ تَقدِیر مُشکِل ہوتا جاتا ہے
سِتارے ڈُوبتے جاتے ہیں شمعیں بُجھتی جاتی ہیں
مُرَتّب خودبخود اَنجامِ مَحفِل ہوتا جاتا ہے
محبَّت میں مکان و لامکاں ہیں دو قدَم لیکِن
مُجھے یہ دو قدَم چلنا بھی مُشکِل ہوتا جاتا ہے
بہت دِن سر دُھنا ہے جُرمِ آغازِ محبَّت پر
اور اَب اَنجام سے احسانؔ غافِل ہوتا جاتا ہے
احسان دانش

Leave a Comment
%d bloggers like this: