Skip to content

Month: April 2020

مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد

مُدّتیں قید میں گُذرِیں، مگر اب تک صیّاد
ہم اسِیرانِ قفس تازہ گرفتار سے ہیں

کیا کہیں وہ تِرے اقرار، کہ اقرار سے تھے
کیا کریں یہ تِرے انکار، کہ انکار سے ہیں

کُچھ نہ جِینے میں ہی رکّھا ہے، نہ مرجانے میں
کام جتنے بھی محبّت کے ہیں، بیکار سے ہیں

تُو تو نادم نہ کر، اے یار! کہ تُجھ پر مِٹ کے
خودہم اپنی ہی نگاہوں میں گُنہگار سے ہیں

کہہ دِیا تُو نے جو معصُوم، تو معصُوم ہیں ہم
کہہ دِیا تُو نے گُنہگار، گُنہگار سے ہیں

سرفروشانِ محبّت پہ ہیں احساں تیرے
تیرے ہاتھوں یہ سُبک دوش، گراں بار سے ہیں

فراقؔ گورکھپُوری

Leave a Comment

نقطۂ نوری کہ نام او خودی است

نقطۂ نوری کہ نام او خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است

از محبت می شود پایندہ تر
زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر

از محبت اشتعال جوہرش
ارتقای ممکنات مضمرش

فطرت او آتش اندوزد ز عشق
عالم افروزی بیاموزد ز عشق

عشق را از تیغ و خنجر باک نیست
اصل عشق از آب و باد و خاک نیست

در جہان ہم صلح و ہم پیکار عشق
آب حیوان تیغ جوہر دار عشق

از نگاہ عشق خارا شق شود
عشق حق آخر سراپا حق شود

عاشقی آموز و محبوبی طلب
چشم نوحی قلب ایوبی طلب

کیمیا پیدا کن از مشت گلی
بوسہ زن بر آستان کاملی

شمع خود را ہمچو رومی بر فروز
روم را در آتش تبریز سوز

Leave a Comment

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہرمیں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں

رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں

عروس لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں

جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شۓ متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہی

Leave a Comment

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
ہے وہی اپنا کہ جو اپنے سے بیگانہ رہے

کفر سے یہ التجائیں کر رہا ہوں بار بار
جاؤں تو کعبہ مگر رخ سوئے مے خانہ رہے

شمع سوزاں کچھ خبر بھی ہے تجھے او مست غم
حسن محفل ہے جبھی جب تک کہ پروانہ رہے

زخم دل اے زخم دل ناسور کیوں بنتا نہیں
لطف تو جب ہے کہ افسانے میں افسانہ رہے

ہم کو واعظ کا بھی دل رکھنا ہے ساقی کا بھی دل
ہم تو توبہ کر کے بھی پابند میخانہ رہے

آخرش کب تک رہیں گی حسن کی نادانیاں
حسن سے پوچھو کہ کب تک عشق دیوانہ رہے

فیض راہ عشق ہے یا فیض جذب عشق ہے
ہم تو منزل پا کے بھی منزل سے بیگانہ رہے

مے کدہ میں ہم دعائیں کر رہے ہیں بار بار
اس طرف بھی چشم مست پیر میخانہ رہے

آج تو ساقی سے یہ بہزادؔ نے باندھا ہے عہد
لب پہ توبہ ہو مگر ہاتھوں میں پیمانہ رہے

Leave a Comment

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے
پہ کیا کریں ہمیں‌ اک دوسرے کی عادت ہے

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں‌ مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے

میں کیا کہوں کہ مجھے صبر کیوں نہیں آتا
میں کیا کروں کہ تجھے دیکھنے کی عادت ہے

ترے نصیب میں اے دل ! سدا کی محرومی
نہ وہ سخی، نہ تجھے مانگنے کی عادت ہے

وصال میں‌ بھی وہی ہے فراق کا عالم
کہ اسکو نیند مجھے رت جگے کی عادت ہے

یہ مشکلیں ہیں تو پھر کیسے راستے طے ہوں
میں ناصبور اسے سوچنے کی عادت ہے

یہ خود اذیتی کب تک فراز تو بھی اسے
نہ یاد کر کہ جسے بھولنے کی عادت ہے
احمد فراز

Leave a Comment

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
گر قلم بیچ کے کھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

جھوٹ کے پاؤں بناتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
سچ ہی جب لکھ نہیں پاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

ظلم انصاف بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
راہ سیدھی نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

شاہ کے ناز اٹھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
وقت کی دھونس میں آتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خضر ، رہزن کو بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
دیے راہوں کے بجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

آنکھ دیکھا نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خونِ ناحق جو چھپاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

بات بے وجہ بڑھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
نفرتیں دل میں جگاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

حق کو باطل سے ملاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
معنی مرضی کے سُجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

کفر مجبوری بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
حکم اللہ کے بھلاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خود کو نظروں سے گراتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
سر قلم کا جو جھکاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خود کو لفظوں میں نچاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بس خریدار رجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

Leave a Comment

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے
مری طرف سے علم اور تیس پارے گئے

ترا بچھڑنا بھی میرے لیے مفید رہا
کہ اس خسارے کے باعث کئی خسارے گئے

بجا کہ تیری ہنسی کا کوئی قصور نہیں
مگر جو لوگ غلط فہمیوں میں مارے گئے

میں اب یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں ترے ساتھ
جنہیں تو ساتھ لے آیا تھا وہ تو سارے ، گئے

میں جنگ جیت کے بھی خوش نہیں ہوں ، رو رہا ہوں
کہ اس طرف سے بھی جتنے گئے ، ہمارے گئے

اب اپنا نام کمائیں کہ ایک نام کے ساتھ
بہت ہے جتنا پکارے گئے ، پکارے گئے

ذرا سی پھونک ملی اور ہوا میں اڑنے لگے
ہمارے دوست غبارے تھے اور غبارے ، گئے

افکار علوی

Leave a Comment

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور

تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور

کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور

ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور

لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور

بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

Leave a Comment

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوہ اہل ستم نہیں
مُجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتا
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں

زاہد کُچھ اور ہو نہ ہو میخانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنہ دیر و حرم نہیں

مرگ جگر پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

Leave a Comment

یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے

یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے
اے جنوں کر دے باکمال مجھے

خاک اپنا خیال رکھّوں گا
کب نہیں ہے ترا خیال مجھے

وقت سے پہلے توڑ دے نہ کہیں
ٹوٹ جانے کا احتمال مجھے

میں کہ ہوں اک دیا محبت کا
طاقِ نسیاں سے مت نکال مجھے

تیری جانب جھکا سا رہتا ہوں
آگے آتا تھا اعتدال مجھے

غور سے اپنے دل کی بھی کبھی سن
میرے منصب پہ کر بحال مجھے

مل گیا ہوتا گر جواب کوئی
یوں نہ چبھتا مرا سوال مجھے

تیری آنکھوں سے پوچھ لوں گا کبھی
مت بتا اپنے دل کا حال مجھے

وقتِ فرقت کا مت حساب بتا
لمحہ لمحہ لگا ہے سال مجھے

تیری چشمِ خلوص افشاں سے
گر نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے

اُن کو پانے کی ہے خوشی راغبؔ
خود کو کھونے کا کیا ملال مجھے

افتخار راغبؔ

Leave a Comment
%d bloggers like this: