Skip to content

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے

پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

پھر گرم نالہ ہائے شرربار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کیے ہوئے

پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صدہزار نمکداں کیے ہوئے

پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خون دل
ساز چمن طرازی داماں کیے ہوئے

باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے

دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئے

دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامۂ دل دار کھولنا
جاں نذر دل فریبی عنواں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے

اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: