Skip to content

Tag: Saleem Kausar

Saleem Kausar

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے
تو مرے جسم مری روح کو اچھا کر دے

کس قدر ٹُوٹ رہی ہے مری وحدت مجھ میں
اے مرے وحدتوں والے مجھے یکجا کر دے

یہ جو حالت ہے مری میں نے بنائی ہے مگر
جیسا تو چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے

میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو
جو ترا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے

مجھ کو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے
کور بینی کو مری دیدۂ بینا کر دے

مجھ کو وہ علم سکھا جس سے اُجالے پھیلیں
مجھ کو وہ اسم پڑھا جو مجھے زندہ کر دے

میرے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال
میرے بچوں کو مہ و مہر و ستارا کر دے

ضائع ہونے سے بچا لے مرے معبود مجھے
یہ نہ ہو وقت مجھے کھیل تماشا کر دے

میں مسافر ہوں، سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کر دے

میری آواز تری حمد سے لبریز رہے
بزمِ کونین میں جاری مرا نغمہ کر دے

(سلیم کوثر)

Leave a Comment

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ھوئے لوگ
چشمِ گریہ میں رھے دل سے نکالے ھوئے لوگ

کب سے راھوں میں تری گرد بنے بیٹھے ھیں
تجھ سے ملنے کیلئے وقت کو ٹالے ھوئے لوگ

کہیں آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ھیں ترے خواب سنبھالے ھوئے لوگ

دامنِ صبح میں گرتے ھوئے تاروں کی طرح
جل رھے ھیں تری قربت کے اجالے ھوئے لوگ

یا تجھے رکھتے ھیں یا پھر تیری خواھش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاھنے والے ھوئے لوگ

Leave a Comment

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے

مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

Leave a Comment

اک گھڑی وصل کی بے وصل ہوئی ہے مجھ میں

اک گھڑی وصل کی بے وصل ہوئی ہے مجھ میں
کس کے آنے کی خبر قتل ہوئی ہے مجھ میں

سانس لینے سے بھی بھرتا نہیں سینے کا خلا
جانے کیا شے ہے جو بے دخل ہوئی ہے مجھ میں

جل اٹھے ہیں سر مژگاں تری خوشبو کے چراغ
اب کے خوابوں کی عجب فصل ہوئی ہے مجھ میں

مجھ سے باہر تو فقط شور ہے تنہائی کا
ورنہ یہ جنگ تو دراصل ہوئی ہے مجھ میں

تو نے دیکھا نہیں اک شخص کے جانے سے سلیمؔ
اس بھرے شہر کی جو شکل ہوئی ہے مجھ میں

سلیم کوثر

Leave a Comment

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی پسند مثال نہیں بنتی، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھُلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی، ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی، سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

میرے چاروں طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بیتاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا، کبھی سچا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو، اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی، کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

میری باتیں جیون سپنوں کی، میرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا، مجھ سے آداب نہیں ہوتا

(سلیم کوثر)

Leave a Comment
%d bloggers like this: