Skip to content

Tag: Wasi Shah

Wasi Shah

گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی

گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی
میرے خطوط کے ٹکڑے تلاش کرتی تھی

کہاں گئی وہ کنواری،اداس بی آپا
جو گاؤں گاؤں میں رشتے تلاش کرتی تھی

بھلائے کون اذیت پسندیاں اس کی
خوشی کے ڈھیر میں صدمے تلاش کرتی تھی

عجب ہجر پرستی تھی اس کی فطرت میں
شجر کے ٹوٹتے پتے تلاش کرتی تھی

قیام کرتی تھی وہ مجھ میں صوفیوں کی طرح
اداس روح کے گوشے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ پردے ہٹا کے چاند کے ساتھ
جو کھو گئے تھے وہ لمحے تلاش کرتی تھی

کچھ اس لئے بھی مرے گھر سے اس کو تھی وحشت
یہاں بھی اپنے ہی پیارے تلاش کرتی تھی

گھما پھرا کے جدائی کی بات کرتی تھی
ہمیشہ ہجر کے حربے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ زخما کے اپنی پوروں کو
میرے وجود کے ریزے تلاش کرتی تھی

دعائیں کرتی تھی اجڑے ہوئے مزاروں پر
بڑے عجیب سہارے تلاش کرتی تھی

مجھے تو آج بتایا ہے بادلوں نے وصی
وہ لوٹ آنے کے رستے تلاش کرتی تھی

Leave a Comment

اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو

اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو

نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو

تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کر دو

اس کے سائے میں مرے خواب دہک اٹھیں گے
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو

دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر
اس قدر برسو مری روح میں جل تھل کر دو

جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل تھل کر دو

تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو

مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو

اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو

مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو

Leave a Comment

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی
تیرے ہونٹوں کی میں حِدّت سے دِہک سا جاتا

رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی
مرمریں ہاتھ کا اِک تکیہ بنایا کرتی

میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا

جب بھی تو بندِ قبا کھولنے لگتی جاناں
اپنی آنکھوں کو تیرے حسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بے تاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ
میں تیری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

Leave a Comment

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی

آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی

اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی

مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی

آئے کوئی آ کر یہ ترے درد سنبھالے
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی

معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے ترے قصے
پر بات تری ہم سے اچھالی نہیں جاتی

ہم راہ ترے پھول کھلاتی تھی جو دل میں
اب شام وہی درد سے خالی نہیں جاتی

ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی

وصی شاہ

Leave a Comment

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ
ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺻﻔﺤﺌﮧ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﻮ ﭘﻠﭩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ
ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺳﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺧﻂ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺗﻢ ﺍﮔﺮﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺳﺮﺩ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﮩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎﭨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺁﺝ ﺗﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﯾﺎﺭﺍﮞ ﭘﮧ ﮨﻮ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺑﮩﺖ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﻧﭽﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺷﺎﻝ ﭘﮩﻨﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯿﮕﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺣﺎﺩﺛﮯ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﮉﮬﺎﻝ
ﮐﺴﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻣﻮ ﮔﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺨﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺑﮭﯽ
ﺗﻢ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﭘﮩﻨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

وصی شاہ

Leave a Comment

دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے

دیار غیر میں کیسے تجھے سدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے

تمہی نے نہ سنایا اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ دیتے کہ آسماں ہلا دیتے

وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جسے حال سناتے اُسے رولا دیتے

ہمیں یہ زعم تھا کہ اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے

تمھیں بھلانا اول تو دسترس میں نہیں
گر اختیار میں ہوتا تو کیا بھلا دیتے؟

سماعتوں کو میں تاعمر کوستا رہا وصی
وہ کچھ نہ کہتے مگر لب تو ہلا دیتے

وصی شاہ

Leave a Comment

لاکھ تم اشک چھپاؤ

لاکھ تم اشک چھپاؤ، ہنسی میں بہلاؤ
چشمِ نمناک بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

یہ جو رُخ موڑ کے تم نے کہا نا، “ٹھیک ہوں میں
مجھے آواز بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

جو اُترتی ہے “مری” آنکھ میں گاہے گاہے
وہ نمی صاف بتاتی ہے کہ “تم” روئے ہو

چاند چُپ ہے، مگر… بھیگی ہوئی سرگوشی میں
چاندنی رات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

میں تجھے جیت کے ہارا، تری خوشیوں کے لیے
پر مری مات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

یہ جو بے موسمی برسات برستی ہے وصی
راز کی بات بتاتی ہے کہ تم روئے ہو

Leave a Comment
%d bloggers like this: