Skip to content

Tag: Shakeb Jalali

Shakeb Jalali

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مَہ و سال کی طرح

کیوں کر کہوں کہ درپئے آزار ہے وہی
جو آسماں ہے سَر پہ مِرے ڈھال کی طرح

یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح

کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح

اب تک مِرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂِ پامال کی طرح

میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفّاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح

ہر موڑ پر ملیں گے کئی راہ زن شکیبؔ
چلیے چھپا کے غم بھی زَر و مال کی طرح

شکیب جلالی

Leave a Comment

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خُوش ہُوں اِس لِیے، کہ کوئی مہرباں نہیں

آغوشِ حادثات میں پائی ہے پروَرِش
جو برق پُھونک دے، وہ مِرا آشیاں نہیں

کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دُشوارِیوں پہ لوگ
ہُوں بے وَطن ضرُور، مگر بے نِشاں نہیں

گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصل‌ِ گُل ہے یہ، دَورِ خِزاں نہیں

کُچھ برق سَوز تِنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جُھک جائیں گُل کے بار سے، وہ ڈالیاں نہیں

شکیبؔ جَلالی

Leave a Comment

‏احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت

‏احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت
اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ پہنچا ہے

میرے اشکوں کو شکایت نہیں کوئی تم سے
مجھ کو اپنی ہی کسی بات سے دُکھ پہنچا ہے

شکیب جلالی

Leave a Comment
%d bloggers like this: