Skip to content

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں

بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خُوش ہُوں اِس لِیے، کہ کوئی مہرباں نہیں

آغوشِ حادثات میں پائی ہے پروَرِش
جو برق پُھونک دے، وہ مِرا آشیاں نہیں

کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دُشوارِیوں پہ لوگ
ہُوں بے وَطن ضرُور، مگر بے نِشاں نہیں

گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصل‌ِ گُل ہے یہ، دَورِ خِزاں نہیں

کُچھ برق سَوز تِنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جُھک جائیں گُل کے بار سے، وہ ڈالیاں نہیں

شکیبؔ جَلالی

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: