Skip to content

Month: January 2021

خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے

خود داریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے

ساحر لدھیانوی

Leave a Comment

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا

الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا

کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا

آرام، عیش خوب ہے ویران گھر میں اب
تنہائیوں سے جب ڈرے ، کمرہ بدل گیا

اتنا تو گر نہ پایا کہ گالی میں دے سکوں
گالی پہ مسکرایا ، ہاں اتنا بدل گیا

لکیں بھی ڈرتے ڈرتے جھپکتا ہوں آج کل
اس بیچ گر جہان کا نقشہ بدل گیا

ہر بار تیری شرطوں پہ تجھ کو منایا ہے
ہر بار زندگی ترا جھگڑا بدل گیا

صیاد نے اڑا دیا پنچھی فضاوں میں
پنچھی کو یوں لگا ہے کہ پنجرہ بدل گیا

سب کچھ بدل گیا ہے بجز ایک عذر کے
کیا کیجئے جناب زمانہ بدل گیا

ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا

ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

Leave a Comment

میرے ھی لہُو پر ، گزر اوقات کرو ھو

میرے ھی لہُو پر ، گزر اوقات کرو ھو
مجھ سے ھی ، امیروں کی طرح بات کرو ھو

دِن ایک ستم ، ایک سِتم رات کرو ھو
وہ دوست ھو ، دشمن کو بھی تم مات کرو ھو

ھم خاک نشیں ، تم سُخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو ، دُور سے کیا بات کرو ھو

ھم کو جو مِلا ھے , وہ تمھیں سے تو ملا ھے
ھم اور بُھلا دیں تمھیں ، کیا بات کرو ھو

یوں تو ھمیں منہ پھیر کے ، دیکھو بھی نہیں ھو
جب وقت پڑے ھے تو ، مدارات کرو ھو

دامن پہ کوئی چھینٹ ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ھو ، کہ کرامات کرو ھو

بَکنے بھی دو عاجزؔ کو ، جو بولے ھے بَکے ھے
دیوانہ ھے ، دیوانے سے کیا بات کرو ھو

Leave a Comment

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کسی نے بھی نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جن کو
وہ سارے ولولے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مفلسوں کی تب کہاں اس بام تک پہنچے

قتیلؔ آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری اِلہام تک پہنچے

Leave a Comment

دسترس میں نہیں ہیں حالات تجھے کیا معلوم

دسترس میں نہیں ہیں حالات تجھے کیا معلوم
اب ضروری ہے ملاقات تجھے کیا معلوم

رات کے پچھلے پہر نیند شکن تنہائی
کیسے کرتی ہے سوالات تجھے کیا معلوم

تو بہ ضد ہے کہ سرعام پرستش ہو تیری
میں ہوں پابند روایت تجھے کیا معلوم

جشن ساون کا یوں بڑھ چڑھ کے منانے والے
ظلم کیا ڈھاتی ہے برسات تجھے کیا معلوم

شانہء وقت پہ اب زلف پریشان کی طرح
بکھری رہتی ہے میری ذات تجھے کیا معلوم

صدا باتیں تھیں اس کی مگر ان میں کہیں
چپ تھے رنگین خیالات تجھے کیا معلوم

Leave a Comment

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮐﭽﮭﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ
ﮐﭽﮭﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﺍﺳﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﺎﻧﺪ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺲ ﺩﯾﻮﺍﺭ .. ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻠﮕﺘﮯ ﮨﻮﮰ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﭘﮧ ﻣﺖ ﺟﺎ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﮮ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﺩﮬﻮﭖ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ
ﺳﺎﺋﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﻢ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺷﺠﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺑﮯ ﺣﺮﻑ ﻃﻠﺐ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ
ﻭﮦ ﯾﻮﮞ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺩ ﺩﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺗﻢ ﻣﻨﺼﻒ ﻭ ﻋﺎﺩﻝ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﮐﯿﻮﮞ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯ ﺳﺮ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﺍﮮ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﺗﻮ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻮﭼﮧ ﻭ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

ﻣﺤﺴﻦ ﮨﻤﯿﮟ ﺿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺑﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﮯ ﻃﺮﻓﺪﺍﺭ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ

Leave a Comment

پہلا سا حال، پہلی سی وحشت نہیں رہی

پہلا سا حال، پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی

شہروں میں ایک شہر مرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی

لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ
بچھڑے تو دُور دُور رقابت نہیں رہی

شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی

راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی

راہوں میں ایک راہ وہ گھر لَوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی

یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی

ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی

خوابوں میں ایک خواب تری ہمرَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی

رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی

باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اِتّفاق کہ چاہت نہیں رہی

یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
مِلنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی

فصلوں میں ایک فصل وہ جاندادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی

زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی

سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیرؔ
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی

Leave a Comment

کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے

کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے
تیرے چہرے کے دل آویز گلابی ہالے
میرے الفاظ کا ترشا ہوا سنگِ مرمر
کون سے بت میں تیرے جسم جواں کو ڈھالے

تیری نوخیز جوانی کے کنوارے موتی
جگمگاتے رہے وجدان کے آئینے میں
بن گئے رشک چمن لالہ و نرگس کی طرح
داغ اور زخم تھے جتنے بھی میرے سینے میں

تیری خوشبو سے مہکنے لگا گلشن گلشن
ڈالیاں پھولوں کی جھک کر تجھے کہتی ہیں سلام
گردشِ وقت رک جاتی ہے توبہ توبہ
میں نے دیکھا ہی نہیں تجھ سا کوئی آہستہ خرام

یہ تیرا پیکر صد رنگ یہ تیرا آہنگ جمال
دیکھ کر تجھ کو خیال آتے ہیں کیسے کیسے
تیرا چہرہ ہے کہ تخلیق مہ و مہر کا راز
تیری آنکھیں ہیں کہ اسرار دو عالم جیسے

تیری صورت تیری معصوم و مقدس صورت
میری ہر سوچ کے آئینے میں لہراتی ہے
ہائے وہ شعر کہ موزوں نہ ہوا جو تا عمر
تو اسی شعر کی تعریف بنی جاتی ہے

Leave a Comment

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام
آدمی ہے شلجم اور گاجر کی ترکاری کا نام

اُس نے کی پہلے پہل پیمائشِ صحرائے نجد
قیس ہے دراصل اِک مشہور پٹواری کا نام

عشق ہر جائی بھی ہو تو درد کم ہوتا نہیں
اک ذرا تبدیل ہو جاتا ہے بیماری کا نام

کوئی نصب العین ، کوئی عشق کوئی چاندنی ؟
زندگی ہے ورنہ اک مصرُوف بیکاری کا نام

مدتوں دُزدیدہ ، دُزدیدہ نظر سے دیکھنا
عشق بھی ہے اک طرح کی چور بازاری کا نام

مَیں نے تو اپنے لئے آوارگی تجویز کی
تم نے کیا رکھا ہے اپنی خود گرفتاری کا نام

بات تو جب ہے بدل جائے سرشت انسان کی
یُوں تو لکھ دینے کو لکھ دو اُونٹ پر لاری کا نام

دل ہو یا دلیہ ہو ، دانائی کہ بالائی ضمیر
زندگی ہے بعض اشیاء کی خریداری کا نام

Leave a Comment

شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

بیٹھا ہوں رخت باندھ کے ، ساعت سحر کی ہے
رونق عجیب شہرِ بریلی میں گھر کی ہے
سب آکے پوچھتے ہیں عزیمت کدھر کی ہے
شکرِ خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے

شوط و طواف و سعی کے نکتے سکھا دئیے
احرام و حلق و قصر کے معنٰی بتا دئیے
رمی و وقوف و نحر کے منظر دکھا دئیے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصلِ مراد حاضری اس پاک در کی ہے

صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیں
ہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیں
حبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جاں وار دوں یہ کام جو میرا صبا کرے
بعد از سلامِ شوق یہ پیش التجا کرے
کہتا ہے اک غلام کسی شب خدا کرے
ماہِ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

سب جوہروں میں اصل ترا جوہرِ غنا
اس دھوم کا سبب ہے تری چشمِ اعتنا
ممنون تیرے دونوں ہیں ، بانی ہو یا بِنا
ہوتے کہاں خلیل و بِنا کعبہ و مِنٰی
لولاک والے ! صاحبی سب تیرے گھر کی ہے

سر پر سجا کے حمد و ثنا کی گھڑولیاں
وہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاں
جالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاں
لب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاں
کتنے مزے کی بھیک ترے پاک در کی ہے

ہے دفترِ نسب میں یہ عزت لکھی ہوئی
قرطاسِ وقت پر ہے یہ خدمت لکھی ہوئی
پُشتوں سے گھر میں ہے یہ عبارت لکھی ہوئی
میں خانہ زادِ کہنہ ہوں ، صورت لکھی ہوئی
بندوں‌کنیزوں میں مرے مادر پدر کی ہے

ہر لمحہ آشنائے تب و تاب ہوگی آب
دنیائے آبرو میں دُرِ ناب ہوگی آب
ان کا کرم رہا تو نہ بے آب ہوگی آب
دنداں کا نعت خواں ہوں ، نہ پایاب ہوگی آب
ندی گلے گلے مرے آبِ گہر کی ہے

دم گُھٹ رہا تھا محبسِ قالب میں بے ہوا
تھا ملتجی نصیر کہ یارب چلے ہوا
اتنے میں‌ دی سروش نے آواز ، لے ہوا
سنکی وہ دیکھ ! بادِ شفاعت کہ دے ہوا
یہ آبرو رضا ترے دامانِ تر کی ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: