Skip to content

Month: January 2021

وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں

وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں
اُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں

ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھو
مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں

تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے
انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں

اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار
کہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں

اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم
سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں

رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں

انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری
جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد
اسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں

آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے
گرنے والوں کو چہِ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں

جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کھلکھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر
پھول جامہ سے نکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں

تو ہے وہ بادشہِ کون و مکاں کہ مَلک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں

جس کے جلوے سے اُحُد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں
ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں

کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وَری تیرے ہی دَم کی ہے سب جلوہ گری
مَلک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں

ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور
ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپاکرتے ہیں

لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منھ میں گھل جاتا ہے شہدِ نایاب
وَجْد میں ہوکے ہم اے جاں بے تاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں

لب پہ کس منھ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دل ہے الم جس کا سنائیں
ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے در پر جو مٹا کرتے ہیں

اپنے دل کا ہے انھیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انھیں کو سب کام
لو لگی ہے کہ اب اس در کے غلام چارۂ دردِ رؔضا کرتے ہیں

Leave a Comment

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے،اخیر ہے

ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے،اخیر ہے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ہے،اخیر ہے

ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ہے،اخیر ہے

ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ہے،اخیر ہے

اسی طرف بھڑک رہی ہے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ہے، اخیر ہے

اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ہے میں نے جھنگ کی جو ہیر ہے،اخیر ہے

ہرا رہے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ہے،اخیر ہے

بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ہے،اخیر ہے

چھڑی ہے میر کی غزل سجی ہے بزمِ مے کشاں
بنا ہوا ہے جو سماں اخیر ہے،اخیر ہے

قریب ہے دلِ حزیں پہ شعر کا نزول ہو
کہ رو برو جو حسنِ دلپذیر ہے،اخیر ہے

Leave a Comment

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے

میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں
جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے

نہ یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں
میں خیال و وہم سے دور ہوں، مجھے آج کوئی صدا نہ دے

مرے گھر سے دور ہیں راحتیں، مجھے ڈھونڈتی ہیں مصیبتیں
مجھ خوف یہ کہ مرا پتہ کوئی گردشوں کو بتا نہ دے

مجھے چھوڑ دے مرے حال پر، ترا کیا بھروسہ اے چارہ گر
یہ تری نوازشِ مختصر ، مرا درد اور بڑھا نہ دے

مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

درِ یار پہ بڑی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ابھی نیند آئی ہے حُسن کو کوئی شور کر کے جگا نہ دے

مرے داغِ دل سے ہے روشنی یہی روشنی مری زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تُو ہی بُجھا نہ دے

وہ اُٹھے ہیں لے کے خم و سبو، ارے اے شکیل کہاں ہے تُو
ترا جام لینے کو بزم میں ، کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

Leave a Comment

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی

حاکم تھا جسم ، جس کی رعیت میں کاٹ دی
اک عمر ہم نے اپنی معیت میں کاٹ دی

جس کال کی برس ہا برس سے تھی منتظر
وہ اپنی جلد باز طبیعت میں کاٹ دی

اپنی نہیں چلائیں کبھی خود پہ مرضیاں
بس زندگی خدا کی مشئیت میں کاٹ دی

اس بدگمان شخص کی پہلے پہل سنی
جب بات بڑھ گئی تو اذیت میں کاٹ دی

سوچا کہ میرا کون ہے جس کے لیے لکھوں ؟
تحریر جو لکھی تھی وصیت میں ، کاٹ دی

نیت پہ انحصار تھا اعمال کا سو ، عمر
ہم نے ترے حصول کی نیت میں کاٹ دی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟

جستجو میں تیری پھرتا ہوں نجانے کب سے؟
آبلہ پا ہیں مرے ساتھ زمانے- کب سے

میں کہ قسمت کی لکیریں بھی پڑھا کرتا تھا
کوئی آیا ہی نہیں ہاتھ دکھانے کب سے

نعمتیں ہیں نہ عذابوں کا تسلسل اب تو
مجھ سے رُخ پھیر لیا میرے خدا نے کب سے

جان چھٹرکتے تھے کبھی خود سے غزالاں جن پر
بھول بیٹھے ہیں شکاری وہ نشانے کب سے

وہ تو جنگل سے ہواؤں کو چُرا لاتا تھا
اُس نے سیکھے ہیں دیے گھر میں جلانے کب سے؟

شہر میں پرورشِ رسمِ جنوں کون کرے؟
یوں بھی جنگل میں یاروں کے ٹھکانے کب سے؟

آنکھ رونے کو ترستی ہے تو دل زخموں کو
کوئی آیا ہی نہیں احسان جتانے کب سے

جن کے صدقے میں بسا کرتے تھے اُجڑے ہوئے لوگ
لُٹ گئے ہیں سرِ صحرا وہ گھرانے کب سے

لوگ بے خوف گریباں کو کُھلا رکھتے ہیں
تِیر چھوڑا ہی نہیں دستِ قضا نے کب سے

جانے کب ٹوٹ کے برسے گی ملامت کی گھٹا؟
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں دِوانے کب سے

جن کو آتا تھا کبھی حشر جگانا محسن
بختِ خفتہ کو نہ آئے وہ جگانے کب سے

محسن نقوی

Leave a Comment

بجھ گئی آگ ‘ سو میں اپنی تن آسانی کو

بجھ گئی آگ ‘ سو میں اپنی تن آسانی کو
اوڑھ لیتا ہوں ترے جسم کی عُریانی کو

خوف کھائیں گے تو مر جائیں گے ویرانے میں
تُم زرا آگ جلاؤ ‘ میں چلا پانی کو

بے سبب کوئی یہاں دشت و بیاباں لایا
ہجر کافی تھا مری آنکھ کی ویرانی کو

واپس آئے تو در و بام بھی اپنے نہ رہے
ہم جو گھر چھوڑ کے نکلے تھے جہاں بانی کو

پہرہ داروں نے مرے قتل میں عجلت کی ہے
میں تو آیا تھا ترے گھر کی نگہبانی کو

میں تو سیلاب سے کہتا ہوں مرے گھر آؤ
اور لے جاؤ مری بے سرو سامانی کو

وہ اگر ڈھانپ دے تعبیر سے مجھ کو نیّرؔ
چھوڑ دوں خوابِ پیشماں کی پیشمانی کو

Leave a Comment

وہ تیرا روٹھنا مجھ سے , میرا تجھ کو منا لینا

وہ تیرا روٹھنا مجھ سے , میرا تجھ کو منا لینا
محبت کی نشانی ھے , گلے مجھ کو لگا لینا

محبت جس سے ھوتی ھے , اسی پہ مان ھوتا ھے
کبھی میں روٹھ جاءوں تو مجھے تم بھی منا لینا

انا سے دور ھی رھنا کہ یہ سب کچھ مٹا دے گی
انا کے خول سے خود کو ھر صورت بچا لینا

محبت کے سمندر میں کبھی طوفاں بھی اُٹھتا ھے
اس طوفان میں جاناں مجھے کشتی بنا لینا

اگر ڈوبیں گے ھم تو ایک ساتھ ڈوبیں گے
میرا تم سے یہ وعدہ ھے, مگر تم بھی نبھا لینا

Leave a Comment

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِفرنگیانہ

تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

یہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی
یا بندہ خدا بن یا بندہ زمانہ

غافل نہ ہو خودی سے ، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

اے لا الہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ ، کردار قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ

رازِ حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ

Leave a Comment

بیٹیوں جیسی ھے تُو، سو جب بڑی ھوجائے گی

بیٹیوں جیسی ھے تُو، سو جب بڑی ھوجائے گی
اے اُداسی ! کیا تری بھی رُخصتی ھوجائے گی ؟

ایک ھی تو شخص مانگا ھے خُدایا ! دے بھی دے
کونسا تیرے خزانوں میں کمی ھوجائے گی

میری بستی میں تو تِتلی پر بھی مَر مِٹتے ھیں لوگ
تیرے آنے سے تو خلقت باؤلی ھوجائے گی

میرا کیا ھوگا، بتا ! تیری محبت ھار کر ؟
تیرا کیا ھے، تُجھ کو فوراً دوسری ھوجائے گی

میرے حِصّے کی خُوشی پر کُڑھنے والے دوستو
اِس طرح کیا میری نعمت آپ کی ھوجائے گی ؟

پھول کُملا جائے گا اتنی مُسلسل دُھوپ سے
ھجر کی شدت سے گوری سانولی ھوجائے گی

دُور ھے جس بزم سے اُس بزمِ کی نیّت تو کر
غیر حاضر شخص ! تیری حاضری ھوجائے گی

بولنے سے شرم آتی ھے تو آنکھوں سے بتا
چُپ بھی ٹُوٹے گی نہیں اور بات بھی ھوجائے گی

اور کیا ھوگا زیادہ سے زیادہ ھجر میں ؟
سانس کی مہلت میں تھوڑی سی کمی ھوجائے گی

اُس کو فارس اپنے سچّے لمس کا تریاق دے
تیری آنکھوں کی ڈسی اچھی بھلی ھو جائے گی

رحمان فارس

Leave a Comment
%d bloggers like this: