Skip to content

Tag: Bashir Badr

Bashir Badr

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمھارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

Leave a Comment

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے، اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو

مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو

ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں، کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمھیں جس نے دل سے بھلا دیا، اسے بھولنے کی دعا کرو

کبھی حسنِ پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کہیں چلوں، مرے ساتھ تم بھی چلا کرو

نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمیِ شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو

یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمھارے گھر کی بہار ہے، اسے آنسوؤں سے ہرا کرو

بشیر بدر

Leave a Comment

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کردے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کردے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کردے

غرور اُس پہ بہت سجا ہے مگر کہدو
اِسی میں اُس کا بھلا ہے غرور کم کردے

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے شراب کم کردے

چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چراغ کی لَو کو ذرا سا کم کردے

کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دُعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کردے
بشیرؔ بدر

Leave a Comment

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے

یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو

یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے

کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں

یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے

وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا

اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر

کئی سال بعد ملے ہیں ہم ترے نام آج کی شام ہے

کوئی نغمہ دھوپ کے گاؤں سا کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا

ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے

Leave a Comment

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے

غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چارغ کی لو کو ذرا سے کم کر دے

کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے

بشیر بدر

Leave a Comment
%d bloggers like this: