Skip to content

Tag: Aitbar Sajid

Aitbar Sajid

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ہوئے
جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے
وہ جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

اعتبار ساجد

Leave a Comment

چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے

چشمِ ساقی نے یہ کیا کھیل رَچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مے خوار بنا رکھا ہے

جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زُلفوں نے عجب جال بِچھا رکھا ہے

حُسن ہو ، یا عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک ، مگر نام جُدا رکھا ہے

رُخ پہ لہراتی ہیں کبھی شانوں سے اُلجھ پڑتی ہیں
تُو نے زُلفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے

تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مے خانے میں کیا رکھا ہے

میری نظروں میں کوئی کیسے جچے اے ساجدؔ
نسبتِ یار نے مغرور بنا رکھا ہے

Leave a Comment

اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا

اُس زخمِ جاں کے نام ، جو اب تک نہیں بھرا
اُس زندہ دل کے نام ، جو اب تک نہیں مَرا

اُن اہلِ دل کے نام ، جو راہوں کی دُھول ہیں
اُن حوصلوں کے نام ، جنہیں دُکھ قبول ہیں

اُس زندگی کے نام ، گزارا نہیں جِسے
اُس قرضِ فن کے نام ، اُتارا نہیں جِسے

اُن دوستوں کے نام ، جو گوشہ نشین ہیں
اُن بے حِسوں کے نام ، جو بارِ زمین ہیں

اُن بے دلوں کے نام ، جو ہر دم ملُول ہیں
اُن بے بسوں کے نام ، جو گملوں کے پھول ہیں

اُس شعلہ رُخ کے نام ، روشن ہے جس سے رات
ہے ضُوفشاں اندھیرے میں ، ہر نقطۂِ کتاب

اُس حسنِ باکمال کی رعنائيوں کے نام
اور اپنے ذہن و قلب کی تنہائيوں کے نام

(اعتبار ساجد)

Leave a Comment

آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا

آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا

ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا

بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا

لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کر دیا

ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

اعتبارساجد

Leave a Comment

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی​

ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی​
ہم جیسی چاہتے تھے وہ قُربت نہیں مِلی​

ملنے کو زندگی میں کئی ہمسفر ملے​
لیکن طبیعتوں سے طبیعت نہیں ملی​

چہروں کے ہر ہجوم میں ہم ڈُھونڈتے رہے​
صُورت نہیں ملی کہیں سیرت نہیں ملی​

وہ یک بیک ملا تو بہت دیر تک ہمیں​
الفاظ ڈُھونڈنے کی بھی مُہلت نہیں ملی​

اُس کو گِلہ رہا کہ توجہ نہ دی اُسے​
لیکن ہمیں خُود اپنی رفاقت نہیں ملی​

ہر شخص زندگی میں بہت دیر سے مِلا​
کوئی بھی چیز حسبِ ضرُورت نہیں ملی​

( اعتبار ساجد )

Leave a Comment
%d bloggers like this: