Skip to content

Month: November 2019

آنکھ میں آنسو نہیں ہیں پر رُلاتا ہے بہت

آنکھ میں آنسو نہیں ہیں پر رُلاتا ہے بہت
وہ دسمبر , ہر دسمبر , یاد آتا ہے بہت

ساتھ میرے بھیگتا ہے بارشوں میں بیٹھ کے
یاد کے سارے دریچے کھول جاتا ہے بہت

روندتا ہے یہ جہاں کی ساری دیواریں کھڑی
دو قدم پر لا کے اس کو آزماتا ہے بہت

مسکراہٹ , گنگناہٹ , قہقہے , باتیں تری
خواب بن کے رات بھر مجھ کو جگاتا ہے بہت

مجھ کو دے جاتا ہے چھپ کے اس کی خوشبو کا پتہ
ایک دیوانے کو پاگل یہ بناتا ہے بہت

جانتا ہے جب نہ اب منزل کی مجھ کو آرزو
راہ میں اندھے کی کیوں شمعیں جلاتا ہے بہت

خواہشوں کے بیج بو کے خود چلا جاتا ہے یہ
وہ دسمبر , ہر دسمبر دل دْکھاتا ہے بہت

اتباف ابرک

Leave a Comment

یہ جُدائیوں کے رستے

یہ جُدائیوں کے رستے ، بڑی دُور تک گئے ھیں
جو گیا ، وہ پھر نہ آیا ، میری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر ، یہ جُنوں فراز کب تک؟؟
جو تُمھیں بھُلا چُکا ھے ، اُسے تم بھی بُھول جاؤ

“احمد فراز”

Leave a Comment

وہ نظر بہم نہ پُہنچی

وہ نظر بہم نہ پُہنچی ، کہ مُحیطِ حُسن کرتے
تیری دِید کے وسیلے ، خد وخال تک نہ پہنچے
کوئی یار جاں سے گزُرا ، کوئی ھوش سے نہ گزُرا
یہ ندیمِ یک دو ساغر ، میرے حال تک نہ پہنچے

“فیض احمد فیض”

Leave a Comment
%d bloggers like this: