Skip to content

Tag: Faiz Ahmad Faiz

Faiz Ahmad Faiz

اور کچھ دیر میں

اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے

دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگ

ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوں‌کے رجز اپنا پتا تو دیں‌گے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے

فیض احمد فیضؔ

Leave a Comment

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
چمن پہ غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

آج تنہائی ، کسی ھمدمِ دیریں کی طرح

آج تنہائی ، کسی ھمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ھے ، میری ساقی گری شام ڈَھلے
منتظر بیٹھے ھیں ھم دنوں ، کہ مہتاب اُبھرے
اور تیرا عکس جَھلکنے لگے ، ھر سائے تلے

“فیض احمّد فیض”

Leave a Comment

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں ، کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

مشکل ہیں اگر حالات وہاں ، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو ، کوچئہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں ، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے ، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

فیض احمد فیضؔ

Leave a Comment

“میرے ھمدم ، میرے دوست”

“میرے ھمدم ، میرے دوست”

گر مجھے اِس کا یقیں ھو ، میرے ھمدم ، میرے دوست
گر مجھے اِس کا یقیں ھو ، کہ تیرے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ، تیرے سینے کی جلن
میری دلجوئی ، میرے پیار سے مِٹ جائے گی

گر میرا حرفِ تسلی وہ دوا ھو جس سے
جی اُٹھے پھر ، تیرا اُجڑا ھُوا بے نُور دِماغ
تیری پیشانی سے دُھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ھو جائے

گر مجھے اِس کا یقیں ھو میرے ھمدم ، میرے دوست

روز و شب ، شام و سحر ، میں تجھےبہلاتا رھُوں
میں تجھے گیت سُناتا رھُوں ھلکے ، شیریں
آبشاروں کے ، بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صُبح کے ، مہتاب کے ، سیاروں کے گیت

تجھ سے میں ، حُسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جِسم
گرم ھاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ھیں
کیسے ایک چہرے کے ٹھہرے ھُوئے مانُوس نقُوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ھیں

کس طرح عارضِ محبُوب کا شفاف بلور
یک بیک بادۂ احمّر سے دَھک جاتا ھے
کیسے گُلچیں کے لیے ، جُھکتی ھے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا اِیوان مَہک جاتا ھے

یونہی گاتا رھُوں ، گاتا رھُوں تیری خاطر
گیت بُنتا رھُوں ، بیٹھا رھُوں تیری خاطر
یہ میرے گیت ، تیرے دُکھ کا مداوا ھی نہیں

نغمۂ جراح نہیں ، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں ، مرھمِ آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں ، نشتر کے سِوا
اور یہ سَفاک مسیحا ، میرے قبضے میں نہیں

اِس جہاں کے کسی ذِی رُوح کے قبضے میں نہیں
ھاں مگر تیرے سِوا ، تیرے سِوا ، تیرے سِوا

“فیض احمّد فیضؔ”

Leave a Comment

شرحِ فراق ، مدحِ لبِِ مُشکبُو کریں​

شرحِ فراق ، مدحِ لبِِ مُشکبُو کریں​
غربت کدے میں ، کس سے تیری گفتگو کریں؟؟
یار آشنا نہیں کوئی ، ٹکرائیں کس سے جام​ ؟؟
کس دلرُبا کے نام پہ , خالی سَبُُو کریں؟؟

“فیض احمّد فیض”

Leave a Comment

حُسن ، مرھُون جوش بادۂ ناز

حُسن ، مرھُون جوش بادۂ ناز
عشق ، منت کشِ فسُون نیاز

دل کا ھر تار ، لرزشِ پیہم
جاں کا ھر رشتہ ، وقفِ سوز و گداز

سوزش دردِ دِل ، کسے معلوم
کون جانے ، کسی کے عشق کا راز

میری خاموشیوں میں ، لرزاں ھے
میرے نالوں کی ، گم شدہ آواز

ھو چکا عشق ، اب ھوس ھی سہی
کیا کریں ، فرض ھے ادائے نماز

تُو ھے ، اور اِک تغافل پیہم
میں ھُوں ، اور انتظار بے انداز

خوفِ ناکامئ اُمید ھے ، فیضؔ
ورنہ ، دِل توڑ دے طلسم مجاز

“فیض احمّد فیض”

Leave a Comment

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی

گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی

دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکرِ وطن اپنے روبرو ہی سہی

Leave a Comment

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے
دست قدرت کو بے اثر کر دے

تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخی مے کو تیز تر کر دے

جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاک دامن کو تا جگر کر دے

میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے

لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے

فیضؔ تکمیل آرزو معلوم
ہو سکے تو یوں ہی بسر کر دے

Leave a Comment
%d bloggers like this: