Skip to content

Month: October 2021

یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں

یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سنتا ہی نہیں اُس کو پکارے جائیں
باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک
اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں
ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں
دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں
تج دیا تم نے در یار بھی اکتا کے فرازؔ
اب کہاں ڈھونڈھنے غم خوار تمہارے جائیں
احمد فراز

Leave a Comment

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزمِ گیتی
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی آج

رونمائی کی یہ ساعت یہ تہی دستئ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات، وفا نذر، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں

کب سے تخئیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری

مرحلے جھیل کے نکھرا ہے مذاقِ تخلیق
سعئ پیہم نے دئے ہیں یہ خد و خال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سُبُک چال تجھے

تیرے قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو

یہ ترا پیکرِ سیمیں، یہ گلابی ساری
دستِ محنت نے شفق بن کے اڑھادی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمالِ رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سِکھا دی تجھ کو

آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکّریں لہجے میں نچوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور

یہ لطافت، یہ نزاکت، یہ حیا، یہ شوخی
سو دیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لبِ شاداب پہ چھلکی ہوئی گلنار ہنسی
اک بغاوت ہے یہ آئینِ جراحت کے خلاف

حوصلے جاگ اٹھے، سوزِ یقیں جاگ اٹھا
نگہِ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارضِ حسیں پر سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گزاروں کو سلام

آ، قریب آ، کہ یہ جُوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
مری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے

Leave a Comment

ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ

ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺳﺨﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺮﻑ ﺩﺷﻨﺎﻡ
ﺑﮯ ﻣﮩﺮ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ
ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﮨﻤﻮﺍﺭﯼٔ ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﺳﻼﻣﺖ
ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﺎﻣﺎﻟﯽٔ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﭼﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﻌﺒﻮﺩ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺮﺥ ﺭﻭ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮕﮧ ﺩﺍﺭ
ﺍﺱ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺭﻻﯾﺎ
ﺍﺱ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﻭﺿﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ

Leave a Comment
%d bloggers like this: