Skip to content

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے

ماہِ کامل نہ سہی پاس ، ستارہ کوئی ہے
یہ غلط فہمی رہی ہم کو ، ہمارا کوئی ہے

یہ جو بہتے ہوئے لاشے ہیں ، کہاں جاتے ہیں ؟
بول دریائے ستم تیرا کنارہ کوئی ہے ؟

بس ہوا ملتے ہی ہر یاد بھڑک اٹھتی ہے
یوں سمجھ راکھ کے اندر بھی شرارا کوئی ہے

کوئی دستک ہی نہ تھی اور نہ “میں ہوں” کی صدا
میں نے چوکھٹ پہ کئی بار پکارا ، کوئی ہے ؟

تو جو عامل ہے تو پھر توڑ بتا وحشت کا
اس محبت کی اذیت کا اتارا کوئی ہے ؟

آج کل تم بھی اکیلے ہو سنا ہے میں نے
تم تو کہتے تھے مرے بعد تمہارا کوئی ہے

کومل جوئیہ

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: