Skip to content

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح

تیز آندھیوں میں اُڑتے پَر و بال کی طرح
ہر شے گزشتنی ہے مَہ و سال کی طرح

کیوں کر کہوں کہ درپئے آزار ہے وہی
جو آسماں ہے سَر پہ مِرے ڈھال کی طرح

یوں بے سبب تو کوئی انہیں پوجتا نہیں
کچھ تو ہے پتھروں میں خدوخال کی طرح

کیا کچھ کیا نہ خود کو چھپانے کے واسطے
عریانیوں کو اوڑھ لیا شال کی طرح

اب تک مِرا زمین سے رشتہ ہے استوار
رہنِ ستم ہوں سبزۂِ پامال کی طرح

میں خود ہی جلوہ ریز ہوں، خود ہی نگاہِ شوق
شفّاف پانیوں پہ جھکی ڈال کی طرح

ہر موڑ پر ملیں گے کئی راہ زن شکیبؔ
چلیے چھپا کے غم بھی زَر و مال کی طرح

شکیب جلالی

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: