Skip to content

Category: Uncategorized

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایaتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خاں مومن

Leave a Comment

دلِ گمشدہ

دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
کسی خشک خاک کے ڈھیر پر
یا کسی مکاں کی منڈیر پر
دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
جہاں لوگ ہوں ، اُسے چھوڑ کر
کسی راہ پر ، کسی موڑ پر
دلِ گمشدہ ! کبھی مِل ذرا
مجھے وقت دے ، میری بات سُن
میری حالتوں کو تو دیکھ لے
مجھے اپنا حال بتا کبھی
کبھی پاس آ ! کبھی مِل سہی
میرا حال پوچھ ! بتا مجھے
میرے کس گناہ کی سزا ھے یہ…؟
تُو جنون ساز بھی خود بنا
میری وجہِ عشق یقیں تیرا
مِلا یار بھی تو ، ترے سبب
وہ گیا تو ، تُو بھی چلا گیا؟؟؟
دِلِ گمشدہ؟ یہ وفا ھے کیا؟
اِسے کس ادا میں لکھوں بتا؟
اِسے قسمتوں کا ثمر لکھوں؟
یا لکھوں میں اِس کو دغا، سزا؟
!دِلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا

Leave a Comment

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے​

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے​
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے​

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح​
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے​

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے​
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے​

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا​
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے​

شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس​
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے​

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن​
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

Leave a Comment

ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ

ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺳﺨﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺮﻑ ﺩﺷﻨﺎﻡ
ﺑﮯ ﻣﮩﺮ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ
ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﮨﻤﻮﺍﺭﯼٔ ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﺳﻼﻣﺖ
ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﺎﻣﺎﻟﯽٔ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﭼﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﻌﺒﻮﺩ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺮﺥ ﺭﻭ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮕﮧ ﺩﺍﺭ
ﺍﺱ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺭﻻﯾﺎ
ﺍﺱ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﻭﺿﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ

Leave a Comment

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا

اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا

ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا
یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا

کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں
یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا


اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ
اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا

Leave a Comment

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو

کیوں چاہتا ہوں تم کو تبسّم یہ ہے وہ راز
چاہو بھی تم اگر، کبھی افشا نہ کر سکو

Leave a Comment

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے

تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے

راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں
وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے

وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

آب محیط عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیمؔ ڈر گیا ہم بھی عدیمؔ ڈر گئے

اس کے سلوک پر عدیمؔ اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے

عدیم ہاشمی

Leave a Comment

تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے

تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے
وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے

تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے
حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے

درد، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے
شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے

تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر

پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر
اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر

آنکھ وقف دید تھی، لب مائل گفتار تھا
دل نہ تھا میرا، سراپا ذوق استفسار تھا

Leave a Comment

مانیں گے ہم خُدا نہ زمانے کا فیصلہ

مانیں گے ہم خُدا نہ زمانے کا فیصلہ
خود ہی کریں گے جانے نہ جانے کا فیصلہ

تُو بھی تو ایک راز ہے اس کائنات کا
سو عقل نے کیا تجھے پانے کا فیصلہ

مانوس ہوں خزاں سے تو لوٹ آئے پھر بہار
موسم نے کر رکھا ہے ستانے کا فیصلہ

فرصت کا مرحلہ ہے ، تمنائے گُل نہیں
ہے ریت پر جو باغ لگانے کا فیصلہ

ہم نے زمیں پہ امن بھی دیکھا ہے والفلک
جھوٹی خبر سہی، ہے اُڑانے کا فیصلہ

چھانے لگا زمان و مکاں پر عجب سکوت
میں نے کیا جو شور مچانے کا فیصلہ

اے لاشریک! واسطہ اِس وصف کا تجھے
کر مجھ سا کوئی اور بنانے کا فیصلہ

ہو طُور پر کہیں کہ ملے عرش سے پرے
اب کے ہے تجھ کو ڈھونڈ کے لانے کا فیصلہ

Leave a Comment

مُشک پس ِ رخسار بھی اچھی لگتی ہے

مُشک پس ِ رخسار بھی اچھی لگتی ہے
زلف کی یہ مہکار بھی اچھی لگتی ہے

خوشبو دیتے پھول بھی دل کو بھاتے ہیں
پھولوں کی سردار بھی اچھی لگتی ہے

ہاتھ پہ رکھے ہاتھ وہ چاہے بیٹھی ہو
گھر میں وہ بےکار بھی اچھی لگتی ہے

اُس کے ہر اک شر سے خیر نکالا ہے
وہ آفت آثار بھی اچھی لگتی ہے

اُس کے ہر انکار میں ہے اقرار چھپا
کرتی وہ انکار بھی اچھی لگتی ہے

‘جان’ مجھے اب چاہے وہ سو بار کہے
دل کو یہ تکرار بھی اچھی لگتی ہے

منظر کی ویرانی کے اس موسم میں
خالی اک دیوار بھی اچھی لگتی ہے

Leave a Comment
%d bloggers like this: