Skip to content

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے​

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے​
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے​

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح​
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے​

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے​
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے​

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا​
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے​

شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس​
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے​

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن​
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

Published inGazalsSad PoetryUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: