Skip to content

Tag: Itebaf Abrak

Itebaf Abrak

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
یہاں کس نے ہمیں بشر جانا

ہم کہ چپ کو تھے اک ہنر جانے
سب نے کم عقل ، بے خبر جانا

اک سفر ہے یہ زندگی لیکن
کون سمجھا مگر کدھر جانا

راہ ملتے ہی اپنی راہ گیا
یہاں جس جس کو ہمسفر جانا

کیا خرابی ہے میرا ہونے میں
تم کو آتا تو ہے مکر جانا

آنکھ اندھی ہو، کان بہرے ہوں
اس کو کہتے ہیں دل کا بھر جانا

ایسا سیلاب یہ محبت ہے
جس نے سیکھا نہیں اتر جانا

گل ہو، خوشبو ہو یا محبت ہو
سب کا انجام ہے، بکھر جانا

درد، وحشت ، اندھیرا ، دشت، خزاں
میرے دل کو سبھی نے گھر جانا

شبِ غم سے ہر ایک شب نے کہا
آج آئے بنا گزر جانا

ہر تعلق سراب ہے ابرک
جو نہ بھٹکا وہ کب مگر جانا

اتباف ابرک

Leave a Comment

کون بیوپار میں دیکھے گا خریدار کا غم

کون بیوپار میں دیکھے گا خریدار کا غم
یہ ہے بازار یہاں بکتا ہے بازار کا غم

تجھ سے مخفی رہے گرتی ہوئی دیوار کا غم
رب دکھائے نہ مرے یار ، تجھے یار کا غم

غمِ دوراں کا ہو مارا تو شفا ممکن ہے
کس کو آئے گا سمجھ آپ کے بیمار کا غم

یہ الگ بات کہ ہم پار اتر آئے ہیں
ہم کو اس پار بھی رہتا ہے اسی پار کا غم

خواب دیکھے ہیں تری نیندوں نے ہنستے بستے
تیری نیندوں کو پتہ ہی نہیں بیدار کا غم

جاگتا روز ہے پھر ایک نئی شدت سے
جھوٹ دعویٰ ہے کہ مٹ جاتا ہے مے خوار کا غم

یہ جو قربت ہے فقط یار ہے سائے کی طلب
بانٹنے آتا نہیں کوئی بھی دیوار کا غم

آپ کے واسطے یہ عشق تماشا ہو گا
دار پر آؤ گے، سمجھو گے ، تبھی دار کا غم

کاش ابرک یہ لگی دل میں لگی رہ جاتی
کم سے کم ایک تو کم ہوتا یہ انکار کا غم

Leave a Comment

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا

زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا

الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا

کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا

پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا

آرام، عیش خوب ہے ویران گھر میں اب
تنہائیوں سے جب ڈرے ، کمرہ بدل گیا

اتنا تو گر نہ پایا کہ گالی میں دے سکوں
گالی پہ مسکرایا ، ہاں اتنا بدل گیا

لکیں بھی ڈرتے ڈرتے جھپکتا ہوں آج کل
اس بیچ گر جہان کا نقشہ بدل گیا

ہر بار تیری شرطوں پہ تجھ کو منایا ہے
ہر بار زندگی ترا جھگڑا بدل گیا

صیاد نے اڑا دیا پنچھی فضاوں میں
پنچھی کو یوں لگا ہے کہ پنجرہ بدل گیا

سب کچھ بدل گیا ہے بجز ایک عذر کے
کیا کیجئے جناب زمانہ بدل گیا

ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا

ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

Leave a Comment

میں تو ہوں صرف قصہ خواں اس میں

میں تو ہوں صرف قصہ خواں اس میں
دنیا تیری ہے داستاں اس میں

چاہے کوئی بھی دل ٹٹولو تم
کوئی رہتا ہے نیم جاں اس میں

کٹ رہا ہے شجر شجر یہ چمن
کیسا غافل ہے باغباں اس میں

کبھی محفل تھی غم گساروں کی
آج رہتے ہیں بدگماں اس میں

خود جہاں دے گا آندھیوں کو خبر
تم بناﺅ تو آشیاں اس میں

ہر تعلق ہے ناو کاغذ کی
اور محبت ہے بادباں اس میں

گھر بناو تو احتیاط کرو
رہ نہ جائے فقط مکاں اس میں

تھے فسانے کی آنکھ میں آنسو
ذکر آیا مرا جہاں اس میں

مل گئی تو گذار لی ہم نے
یوں جیا جاتا ہے کہاں اس میں

گو کہ ساکت ہے زندگی میری
درد رکھّا گیا رواں اس میں

شکوہ ہے تو حیات سے اتنا
جا رہا ہوں میں رایگاں اس میں

یہ زمانہ ہے آئنہ ، ابرک
ڈھونڈتا کیا ہے خوبیاں اس میں

Leave a Comment

کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے

کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے
زندگی یوں گزار دی ہم نے

آئینہ دیکھ کر یوں گھبرائے
اپنی صورت اتار دی ہم نے

راستے نے تو منزلیں دی ہمیں
اس کو گرد و غبار دی ہم نے

سالِ فردا سے گفتگو جب کی
بس نویدِ بہار دی ہم نے

مانتا ہی نہیں جہاں ہم کو
گو دلیلیں ہزار دی ہم نے

اک نئی روح پھونک دی رب نے
کبھی ہمت جو ہار دی ہم نے

تہہ میں رکھی امید ہی ابرک
جب غزل سوگوار دی ہم نے

Leave a Comment

خلش, گھٹن ہے یہ تشنگی ہے

خلش, گھٹن ہے یہ تشنگی ہے
ہمیں تھا دھوکہ یہ زندگی ہے

پلک جھپکتے خوشی ندارد
تو غم نہ کوئی بھی عارضی ہے

ہیں سب رویے بجھے بجھے سے
نہ دوست اب ہے نہ دشمنی ہے

نہ کوئی سنتا نہ کہہ سکے ہم
ہے شور اتنا کہ خامشی ہے

جلایا امید نے دیا جب
تو سب سے پہلے یہ خود جلی ہے

تلاش میں تھا میں منزلوں کی
سفر سفر میں گزر گئی ہے

لکھا گیا تھا حیات جس کو
یہ رفتہ رفتہ سی خود کشی ہے

کبھی محبت تھی حرف آخر
تو اب تعلق یہ سرسری ہے

میں جب بھی نکلا تری گلی سے
تو سامنے پھر تری گلی ہے

یہ سب مری خوش گمانیاں ہیں
یہ سب محبت کی سادگی ہے

نہ جانے کب سے یوں جی رہا ہوں
کہ سانس جیسے یہ آخری ہے

میں جب سے سمجھا ہوں تجھ کو ابرک
یہ نیند تب سے اڑی اڑی ہے

اتباف ابرک

Leave a Comment

پانچ دس پیسے، چار آنے تھے

پانچ دس پیسے، چار آنے تھے
وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے

جیب میں ہوں گے ایک دن سو بھی
اُن دنوں خواب یہ سہانے تھے

آمدن کے لئے قلم کاپی
کارگر ، مستند بہانے تھے

یار، بوتل، کباب اور قلفی
کبھی قارون کے خزانے تھے

عید کا انتظار رہتا تھا
سکے جیبوں میں کھنکھنانے تھے

کتنی سستی تھیں وہ سبھی خوشیاں
کیا حسیں وقت وہ پرانے تھے

آج پیسہ ہے عقل اور دانش
کل تلک لوگ ہی سیانے تھے

کل میسر تھے مفت جو منظر
اب وہ لاکھوں میں بھی نہ آنے تھے

ہم نے بچپن کو ساتھ یوں رکھا
عمرِ دوراں کے غم بھلانے تھے

خوب پچھلی صدی تھی وہ ابرک
جو تعلق تھے سولہ آنے تھے

اتباف ابرک

Leave a Comment

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے
تو بھی مری مشکل ہے مرا حل تو نہیں ہے

منزل ہو، اجالے ہوں، بہاریں ہوں کہ ہو تم
یاں کوئی کسی کا بھی مسلسل تو نہیں ہے

خود تیری نظر سے بھی تجھے دیکھا ہے دنیا
تصویر کا وہ رخ بھی مکمل تو نہیں ہے

کرتا ہوں رفو روز گریبان میں اپنا
ہر شخص ترے شہر کا پاگل تو نہیں ہے

ہر روز جھڑی لگتی ہے موسم ہو کوئی بھی
ساون کا مری آنکھ یہ بادل تو نہیں ہے

دل محفلِ یاراں میں بھی دھڑکے نہ مرا اب
اس جا بھی وہی دھڑکا یہ مقتل تو نہیں ہے

اک عمر دلاسہ تھا کہ آنی ہے کوئی کل
آئی ہے تو خدشہ ہے یہ وہ کل تو نہیں ہے

بستی نے مجھے ایسا ڈرایا ہے کہ ڈر ہے
اب پھر سے ٹھکانہ مرا جنگل تو نہیں ہے

جاتے ہیں جہاں سے تو سکوں اتنا ہے ابرک
بن میرے کوئی سانس معطل تو نہیں ہے

اتباف ابرک

Leave a Comment

خود کو بھی میں نہیں موافق ہوں

خود کو بھی میں نہیں موافق ہوں
توبہ میں کس قدر منافق ہوں

اک یہی عیب مجھ میں کافی ہے
میں نہیں آپ کے مطابق ہوں

اس جہاں میں جہاں برائی ہے
میں ہی ناچیز اس کا خالق ہوں

آپ ناحق بھی ہیں تو ہیں حق پر
اور میں حق پہ ہو کے ناحق ہوں

وقت اب یوں نظر چراتا ہے
جیسے اس کا پرانا عاشق ہوں

اک طرف عشق اک حماقت ہے
اک طرف میں ازل سے احمق ہوں

اس مرض کی ہو کیا دوا ابرک
جس میں خود،خود کو خود ہی لاحق ہوں

Leave a Comment

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
گر قلم بیچ کے کھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

جھوٹ کے پاؤں بناتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
سچ ہی جب لکھ نہیں پاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

ظلم انصاف بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
راہ سیدھی نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

شاہ کے ناز اٹھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
وقت کی دھونس میں آتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خضر ، رہزن کو بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
دیے راہوں کے بجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

آنکھ دیکھا نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خونِ ناحق جو چھپاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

بات بے وجہ بڑھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
نفرتیں دل میں جگاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

حق کو باطل سے ملاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
معنی مرضی کے سُجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

کفر مجبوری بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
حکم اللہ کے بھلاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خود کو نظروں سے گراتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
سر قلم کا جو جھکاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

خود کو لفظوں میں نچاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بس خریدار رجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو

Leave a Comment
%d bloggers like this: