Skip to content

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ
موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں

خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

یہی مجبور یہی مہر بہ لب بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں

کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیٔ رب پوچھتے ہیں

افتخار عارف

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: