Skip to content

Month: September 2020

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں

غزال آنکھوں کو ، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں

تو علم ہوتا ہے سانپ بچھو پلے ہوئے تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں

تمہارا چہرہ ، تمہارے رخسار و لب سلامت
کہ ہم تو حسرت سے ان خزینوں کو دیکھتے ہیں

بچھڑنے والے اداس رت میں کلینڈروں پر
گزشتہ سالوں ، دنوں ، مہینوں کو دیکھتے ہیں

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو اجڑے ہوئے مسافر
تمہارے پاؤں سے روندے زینوں کو دیکھتے ہیں

کبھی یہ دیکھا تماشہ گاہوں کے کچھ مداری
عجیب دکھ سے تماش بینوں کو دیکھتے ہیں

پرانی تصویر ، ڈائری اور چند تحفے
بڑی اذیت سے روز تینوں کو دیکھتے ہیں

کومل جوئیہ

Leave a Comment

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟

برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی

اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی

انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی

اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی

ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی

انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی
(ابنِ انشا)

Leave a Comment

اور کچھ دیر میں

اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے

دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگ

ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوں‌کے رجز اپنا پتا تو دیں‌گے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے

فیض احمد فیضؔ

Leave a Comment

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف
دل اُن کا نہیں گردشِ ایّام سے واقف

بس ایک ہی محور پہ یہ دل گھوم رہا ہے
آنکھیں ہیں کہ بس ایک در و بام سے واقف

بے گانے پہ پھینکے گا بھلا سنگ کوئی کیوں
کچھ لوگ یقینا ہیں مِرے نام سے واقف

ہے کون جو واقف نہیں ناسازیِ دل سے
دل کس کا نہیں حسرتِ ناکام سے واقف

مرکوز توجّہ ہے فقط کام پہ راغبؔ
انعام سے واقف نہ میں اکرام سے واقف

Leave a Comment

سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کِیا

سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کِیا
دل کو دالان کیا, یار کو مہـمان کیا

حُجرۂ جسم میں معمول کا سنّاٹا تھا
پھر کسی لمس کی آواز نے حیران کیا

دے دیا تیرے تصوّر کے تصرّف میں یہ دل
شمع فانُوس ہوئی, گُل کو گُلِستان کیا

تُو کبھی دے نہ سکا مجھ کو خُوشی کے آنسُو
میں نے سب کچھ تری مُسکان پہ قربان کیا

تجھ کو فُٹ پاتھ پہ شب زاد نظر آئیں گے
دن ڈھلے تُو نے خرابوں پہ اگر دھیان کیا

زندہ رہنے کا ہنر آ گیا آتے آتے
زخم کو پھول کیا, درد کو درمان کیا

آئے دن کرب و اذیّت سے یہاں مرتے رہے
ایک روز اصل میں پھر مَوت نے احسان کیا

مسئلہ ہجر کا پے چیدہ بہت تھا ‘احمدؔ
کلیہِ صبر نے قدرے اسے آسان کیا

احمدؔ نواز

Leave a Comment

اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے

اور اس کے بعد ہمیشہ مُجھے عدو سمجھے
مری مراد نہیں دوست ہو بہو سمجھے

اگرچہ مادری میری زباں ہے پنجابی
پہ شعر اردو میں کہتا ہوں تاکہ تُو سمجھے

نہ سنگِ لفظ گرائے سکوت دریا میں
کوئی نہیں جو خموشی کی آبرو سمجھے

زبانِ حال سے کہتے رہے حذر لیکن
تھرکتے جسم نہ اعضاء کی گفتگو سمجھے

مجھ ایسے مست کا غوغا جسے کھٹکتا ہے
وہ میرے ساتھ رہے، لطفِ ہا و ہو سمجھے

کرے تلاش زمینِ گماں پہ اس کا عکس
وہ روبرو نہ رہے، آنکھ روبرو سمجھے

مرے خیال کو ندرت خدا نے بخشی ہے
تو کیسے شعر مرے کوئی بے وضو سمجھے

Leave a Comment

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں

آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں

ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں

جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں

یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی
روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

حبیب جالب

Leave a Comment

جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے

جو اتر کے زینۂِ شام سے تیری چشم ِخوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ میرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آگئے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے

وہ چراغ ِجاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گئے

وہ تھا چاند شام ِوصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بندگان ِنیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنہیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گئے

تیری بے رخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہَوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گئے

تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرار ِرنگ اجڑ گیا
میری خواہشوں کے غبار میں میرے ماہ و سال ِوفا گئے

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشتِ خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گئے

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

بڑا بدتمیز ہُوں

راز کھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں
میں سچ جو بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اچھے بھلے شریفوں کے ظاہر کو چھوڑ کر
اندر کو پھولتا ہُوں….. بڑا بدتمیز ہُوں

حرکت تو دیکھو میری کہ عہدِ یزید میں
انصاف تولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

اخلاقیات کا میں جنازہ نکال کر
لہجے ٹٹولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کس کی مجال ہے کہ کہے مُجھ کو بدتمیز
میں خُود ہی بولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

کر کے غمِ حیات کی تلخی کا میں نشہ
دن رات ڈولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

ہر ایک شعر میں حق سچ کی شکل میں
میں زہر گھولتا ہُوں… بڑا بدتمیز ہُوں

Leave a Comment

آؤ ملواؤں تمہیں ایسے دکاں دار کے ساتھ

آؤ ملواؤں تمہیں ایسے دکاں دار کے ساتھ
جس کی بنتی ہی نہیں درہم و دینار کے ساتھ

ربط پھیکا ہو تو پهر کس کو مزہ دیتا ہے
کچھ ہوس بھی تو ملاؤ نہ ذرا پیار کے ساتھ

اب بھلا کیسے میں تفریق کروں گا ان میں
میرے اپنے بھی کھڑے ہو گئے اغیار کے ساتھ

پا بجولاں ہی چلے آئے ہو تم مقتل میں
رشتہ لگتا ہے مجھے تیرا کوئی دار کے ساتھ

کون رکھے گا ترے وصل کو ایسے جاناں
میں نے رکھا ہے ترا ہجر بہت پیار کے ساتھ

روشنی شہر کی گلیوں میں رہی رات منیر
چاند بیٹھا رہا لگ کر مری دیوار کے ساتھ

Leave a Comment
%d bloggers like this: