Skip to content

Tag: Jamal Ehsani

Jamal Ehsani

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے​

بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے​
وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے​

اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ​
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے​

مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے​
ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے​

اُسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا​
بہت اُداس ہوئے پھول بیچنے والے​

جمالؔ احسانی

Leave a Comment

وہ مثل آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا

وہ مثل آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا

میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا

وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا

مسلم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا

خط تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا

فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا

وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا

ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

جمال احسانی

Leave a Comment

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش
افلاک پہ جتنے بھی ستارے ہیں کم و بیش

اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش

وه جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے
ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش

موسم کی گھٹن ہو کہ زمانے کا چلن ہو
سب تیرے بچھڑنے کے اشارے ہیں کم و بیش

یہ آنکھیں اگر ہیں تو بہت کم ہیں یہ آنکھیں
ہر سمت یہاں تیرے نظارے ہیں کم و بیش

سب عشق میں اندازے غلط نکلے ہمارے
جو شرط لگائی ہے وه ہارے ہیں کم و بیش

اس گھر کی فضا نے مجھے مانا نہیں اب تک
پینتیس برس جس میں گزارے ہیں کم و بیش

جمال احسانی

Leave a Comment

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
پر اُس کے طور طریقے مُکرنے والے تھے

تمھیں تو فخر تھا شیرازہ بندیء جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

Leave a Comment

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا

وہ مثلِ آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا

میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا

وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا

مسلّم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا

خطِ تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دستِ یار پر رکھا ہوا تھا

فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا

وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا

وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا

ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا

جمال احسانی

Leave a Comment

نہ اپنے ہجر میں پژمردہ پا کے خوش ھے ہمیں

نہ اپنے ہجر میں پژمردہ پا کے خوش ھے ہمیں
نہ اپنے وصل میں شاداب دیکھ سکتا ھے

نہ چاہتا ھے کہ ہم حالتِ سکوں میں رہیں
نہ اپنے عشق میں بیتاب دیکھ سکتا ھے!

جمال احسانی

Leave a Comment

‏‎جو تُو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا

‏‎جو تُو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
‏‎ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا

‏‎بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
‏‎اُس ایک اشک کا _ کیا کیا ملال رہ جاتا
‏‎

جمال آحسانی

Leave a Comment
%d bloggers like this: