Skip to content

Tag: Akbar Allahabadi

Akbar Allahabadi

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment

ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

نا تَجرِبَہ کاری سے واعِظ کی یہ ہیں باتیں
اِس رَنگ کو کَیا جانے پُوچھو تَو کبھی پی ہے

اُس مَے سے نہیں مَطلَب دِل جِس سے ہو بیگانہ
مَقصُود ہے اُس مَے سے دِل ہی میں جو کِھنچتی ہے

سُورج میں لَگے دَھبّا فِطرَت کے کَرِشمے ہیں
بُت ہَم کو کہیں کافَر اللہ کی مرضی ہے

اے شوق وہی مَے پی اے ہوش ذرا سو جا
مَہمانِ نَظَر اِس دم ایک برقِ تَجَلّی ہے

ہر ذرّہ چَمکتا ہے اَنوارِ اِلہٰی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تَو خُدا بھی ہے

واں دِل میں کہ صَدمے دو، یاں جی میں کہ سب سَہہ لو
اُن کا بھی عَجّب دِل ہے میرا بھی عَجّب جی ہے

تَعلِیم کا شَور اَیسا تَہذِیب کا غُل اِتنا
بَرکت جو نہیں ہوتی نِیََت کی خرابی ہے

سَچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعَتِ حق لازِم
ہاں تَرکِ مے و شاہد یہ اُن کی بُزرگی ہے

اکبرؔ الہ آبادی

Leave a Comment

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار

زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدرِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment
%d bloggers like this: