Skip to content

Month: July 2021

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے
انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے
جو ہونا ہو ابھی اے جرأت رندانہ ہو جائے
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے
بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
الٰہی دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں
الٰہی اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہ
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے
یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی
حفیظؔ اب لطف ہے اک نعرۂ مستانہ ہو جائے
حفیظ جالندھری

Leave a Comment

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment
%d bloggers like this: