Skip to content

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
یہاں کس نے ہمیں بشر جانا

ہم کہ چپ کو تھے اک ہنر جانے
سب نے کم عقل ، بے خبر جانا

اک سفر ہے یہ زندگی لیکن
کون سمجھا مگر کدھر جانا

راہ ملتے ہی اپنی راہ گیا
یہاں جس جس کو ہمسفر جانا

کیا خرابی ہے میرا ہونے میں
تم کو آتا تو ہے مکر جانا

آنکھ اندھی ہو، کان بہرے ہوں
اس کو کہتے ہیں دل کا بھر جانا

ایسا سیلاب یہ محبت ہے
جس نے سیکھا نہیں اتر جانا

گل ہو، خوشبو ہو یا محبت ہو
سب کا انجام ہے، بکھر جانا

درد، وحشت ، اندھیرا ، دشت، خزاں
میرے دل کو سبھی نے گھر جانا

شبِ غم سے ہر ایک شب نے کہا
آج آئے بنا گزر جانا

ہر تعلق سراب ہے ابرک
جو نہ بھٹکا وہ کب مگر جانا

اتباف ابرک

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: