Skip to content

Tag: Hafeez Jalandhari

Hafeez Jalandhari

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے
انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے
جو ہونا ہو ابھی اے جرأت رندانہ ہو جائے
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے
بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
الٰہی دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں
الٰہی اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہ
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے
یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی
حفیظؔ اب لطف ہے اک نعرۂ مستانہ ہو جائے
حفیظ جالندھری

Leave a Comment

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے

ہوش میں آ چکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے

رونق بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے

شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے

ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھر سکے
سن کے یقین کر سکے جا کے انہیں سنا سکے

عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست
اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آ سکے

اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری

Leave a Comment
%d bloggers like this: