Skip to content

Tag: Iftikhar Ragib

Iftikhar Ragib

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں
محبتیں نہ لُٹاتا تو اور کیا کرتا
وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں
عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں
چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے
خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں
مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان
اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں
ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اُٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں
زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا
ترا غرور، ترا افتخار یعنی میں
ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ
نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں
ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ
مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں
افتخار راغبؔ

Leave a Comment

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف

جو گیسوے جاناں کے نہیں دام سے واقف
دل اُن کا نہیں گردشِ ایّام سے واقف

بس ایک ہی محور پہ یہ دل گھوم رہا ہے
آنکھیں ہیں کہ بس ایک در و بام سے واقف

بے گانے پہ پھینکے گا بھلا سنگ کوئی کیوں
کچھ لوگ یقینا ہیں مِرے نام سے واقف

ہے کون جو واقف نہیں ناسازیِ دل سے
دل کس کا نہیں حسرتِ ناکام سے واقف

مرکوز توجّہ ہے فقط کام پہ راغبؔ
انعام سے واقف نہ میں اکرام سے واقف

Leave a Comment

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں

محبتیں نہ لُٹاتا تو اور کیا کرتا
وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں

عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں

چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے
خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں

مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان
اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں

ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اُٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں

زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا
ترا غرور، ترا افتخار یعنی میں

ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ
نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں

ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ
مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں

افتخار راغبؔ

Leave a Comment

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ
نادیدہ اک عدو کی ہے یلغار، گھر میں رہ

شامل ہے بزدلوں میں تو باہر نکل کے بھاگ
دشمن سے گر ہے بر سرِ پیکار، گھر میں رہ

رہ کر بھی ساتھ ساتھ کبھی ہاتھ مت ملا
کر رسم و راہ سے سبھی انکار، گھر میں رہ

کہہ دے کہ گھر میں بیٹھنے والے ہیں ہم سبھی
دشمن کے آگے ڈال دے ہتھیار، گھر میں رہ

گھر میں ہی رہ کے لڑنا ہے اب کے عدو سے جنگ
اُس پر چلے گا تیر نہ تلوار، گھر میں رہ

دھو ہاتھ بار بار، نہ دھو زندگی سے ہاتھ
سانسوں سے تیری گھر میں ہے مہکار، گھر میں رہ

تسکین کتنے چہروں پہ ہے تجھ سے، یاد رکھ
باہر ہے گرم خوف کا بازار، گھر میں رہ

ٹوٹا ہوا بھی دل ہو تو مت رنج کر کوئی
گر اپنے آپ سے ہے تجھے پیار، گھر میں رہ

سیلاب ہے بلا کا، دریچے سے جھانک، دیکھ
خستہ سفینہ، ٹوٹی ہے پتوار، گھر میں رہ

چارہ گروں کا بھی ہے یہی سب سے التماس
حالات و وقت کا بھی ہے اصرار گھر میں رہ

تنہا سکوں سے بیٹھ کے خالق سے لو لگا
خود کو بنا لے رحم کا حق دار، گھر میں رہ

بے شک اگر ہے جان تو راغبؔ جہان ہے
دیوار و در ہیں تجھ سے ہی ضوبار، گھر میں رہ

Leave a Comment

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات
مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری دنیا کا ہے پالن ہار تُو
محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے
مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور
رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے
منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا
کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے
ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔ کی بھی آسان کر
اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

Leave a Comment

ڈوب کر دیکھ لے کبھوٗ مجھ میں

ڈوب کر دیکھ لے کبھوٗ مجھ میں
کس کی خوشبوٗ ہے کوٗ بہ کوٗ مجھ میں

ہر گھڑی محوِ گفتگوٗ مجھ میں
کون در آیا خوش گلوٗ مجھ میں

کتنی سمٹی ہوئی مری ہستی
کتنا پھیلا ہوا ہے توٗ مجھ میں

اُن کو تیرے سراغ سے ہے غرَض
اور دیکھیں گے کیا عدوٗ مجھ میں

گھُٹنے لگتا ہے دَم مسرّت کا
درد ہوتا ہے سرخ روٗ مجھ میں

اب کہاں وہ زبانِ خلق میں بات
کیجیے میری جستجوٗ مجھ میں

کب نہ تھا چاک دامنِ احوال
کب نہ تھی حاجتِ رفوٗ مجھ میں

خوب صورت حیات لگنے لگی
بس گیا جب وہ خوب روٗ مجھ میں

آسماں میں رواں دواں خورشید
تجھ سے ملنے کی آرزوٗ مجھ میں

سہمے سہمے خرَد کے بال و پر
چل رہی ہے جنوٗں کی لوٗ مجھ میں

کس کی چاہت کی فاختہ راغبؔ
اڑتی رہتی ہے چار سوٗ مجھ میں

افتخار راغبؔ

Leave a Comment

یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے

یوں ہی رکّھے گا کیا نڈھال مجھے
اے جنوں کر دے باکمال مجھے

خاک اپنا خیال رکھّوں گا
کب نہیں ہے ترا خیال مجھے

وقت سے پہلے توڑ دے نہ کہیں
ٹوٹ جانے کا احتمال مجھے

میں کہ ہوں اک دیا محبت کا
طاقِ نسیاں سے مت نکال مجھے

تیری جانب جھکا سا رہتا ہوں
آگے آتا تھا اعتدال مجھے

غور سے اپنے دل کی بھی کبھی سن
میرے منصب پہ کر بحال مجھے

مل گیا ہوتا گر جواب کوئی
یوں نہ چبھتا مرا سوال مجھے

تیری آنکھوں سے پوچھ لوں گا کبھی
مت بتا اپنے دل کا حال مجھے

وقتِ فرقت کا مت حساب بتا
لمحہ لمحہ لگا ہے سال مجھے

تیری چشمِ خلوص افشاں سے
گر نہ جاؤں کہیں سنبھال مجھے

اُن کو پانے کی ہے خوشی راغبؔ
خود کو کھونے کا کیا ملال مجھے

افتخار راغبؔ

Leave a Comment
%d bloggers like this: