Skip to content

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
پر اُس کے طور طریقے مُکرنے والے تھے

تمھیں تو فخر تھا شیرازہ بندیء جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اُتر ہی گئے جو اُترنے والے تھے

اُس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھیری نہیں
وہاں بھی چند مُسافر اُترنے والے تھے

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: