Skip to content

Month: April 2021

سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی

سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی
تمہارے ہجر کی تقریبِ رونمائی کی

مجھے تو کھا گیا عفریت عشق کا لیکن
جہاں بھی بس چلا ، لوگوں کی راہنمائی کی

شفائے کاملہ کی آس گھٹتی جاتی ہے
بڑھائی جاتی ہے مقدار جب دوائی کی

تمہاری شکل بھی یوسف سے کم نہیں ، اک دن
کھلے گی تم پہ حقیقت تمہارے بھائی کی

وہ دیوتا تو نہیں تھا مگر محبت میں
تمام عمر مرے زعم پر خدائی کی

میں چیخ چیخ کے کہتی ہوں قید رہنے دو
نکالتا ہے وہ صورت اگر رہائی کی

کشید کرتے تھے لذت گناہ گاری سے
قسم اٹھاتے ہوئے لوگ پارسائی کی

تمہیں جہاں پہ بچھڑنا ہو تم بچھڑ جانا
تمہارے پاس سہولت ہے بے وفائی کی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

منہ سے میرے نہیں نکلا کبھی ، آہا آہا

منہ سے میرے نہیں نکلا کبھی ، آہا آہا
ہاں مگر میں نے تجھے ٹوٹ کے چاہا، آہا

اپنی اک آنکھ مرے حالِ دلِ زار پہ رکھ
واقفِ حال ، مرے چور نگاہا ، آہا

میں تو لفظوں سے بناتا ہوں یہ تانے بانے
قریہِ میر کا ہوں ایک جولاہا ، آہا

میں سمجھتا تھا کہ میں تجھ کو بھلا بیٹھا ہوں
درد سے دل ، مرے سینے میں کراہا ، آہا

تو نے لوگوں کی محبت ، مری پہچان بنائی
مجھ پہ یہ تیرا کرم ہے مرے شاہا ، آہا

آمد و رفت ہی اس دنیا کی رعنائی ہے
اک تحرٰک میں ہے چورنگی ، چوراہا ، آہا

دل بھی دیکھے گا کبھی تیری جراحت کے کمال
تیرا بیمار ہوں میں ، میرے جراہا ، آہا

میں جو پڑھتا ہوں تو وہ مصرعہ اٹھا لیتا ہے
بارہا ، اس نے مرا شعر سراہا ، آہا

میری آنکھوں کے کناروں کو بھی روشن کر دے
دن کے سورج ، اے مری رات کے ماہا ، آہا

زخم بخشے ہیں تری یاد کی سسکاری نے
رکھ دے ہونٹوں پہ کوئی پھول سا پھاہا ، آہا

کتنے موقعوں پہ ، مرے دل نے دھڑکنا چھوڑا
بارہا تو نے مرے جی کو تراہا ، آہا

Leave a Comment

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا
زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر

گزرے دنوں میں جو کبھی گونجے تھے قہقہے
اب اپنے اختیار میں وہ بھی نہیں رہے

قسمت میں رہ گئی ہیں جو آہیں تو کیا ہوا
صدمہ یہ جھیلنا ہے شکایت کئے بغیر

وہ سامنے بھی ہوں تو نہ کھولیں گے ہم زباں
لکھی ہے اس کے چہرے پہ اپنی ہی داستاں

اس کو ترس گئی ہیں یہ باہیں تو کیا ہوا
وہ لوٹ جائے ہم پہ عنایت کئے بغیر

پہلے قریب تھا کوئی اب دوریاں بھی ہیں
انسان کے نصیب میں مجبوریاں بھی ہیں

اپنی بدل چکا ہے وہ راہیں تو کیا ہوا
ہم چپ رہیں گے اس کو ملامت کئے بغیر

قتیل شفائی

Leave a Comment

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

بے فائدہ الم نہیں بے کار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں

میری زباں پہ شکوۂ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا یہی احسان کم نہیں

یا رب ہجوم درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی مری آنکھیں بھی نم نہیں

شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں

اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقش قدم نہیں

ملتا ہے کیوں مزہ ستم روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریک ستم نہیں

مرگ جگرؔ پہ کیوں تری آنکھیں ہیں اشک ریز
اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں

Leave a Comment

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا

اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا

ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا
یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا

کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں
یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا


اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ
اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا

Leave a Comment

اول اول کی دوستی ہے ابھی

اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی

احمد فراز

Leave a Comment

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو

کیوں چاہتا ہوں تم کو تبسّم یہ ہے وہ راز
چاہو بھی تم اگر، کبھی افشا نہ کر سکو

Leave a Comment

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ھے

چپکے چپکے یہ مری گھات میں کون آتا ھے
تم نہیں ہو تو،کہو رات میں کون آتا ھے

ہم نہ آئیں تو خرابات میں کون آتا ھے
اور پھر ایسی گھنی رات میں کون آتا ھے

یہ مری سادہ دلی ھے کہ مٹا ہُوں تجھ پر
اے ستم پیشہ تری بات میں کون آتا ھے

چشمِ دیدار طلب،جانچ،پرکھ،دیکھ،سمجھ
سامنے تیرے حجابات میں کون آتا ھے

کُنجِ وحشت میں کہاں پرسشِ احوال کی بات
دن میں آیا نہ کوئی رات میں کون آتا ھے

سانس کی سینے میں آمد ھے کہ اُن کی آہٹ
دیکھنا دل کے مضافات میں کون آتا ھے

مل گیا اُن کو نہ آنے کا یہ حیلہ آچھا
گھر سے باہر بھری برسات میں کون آتا ھے

کون مانے گا کہ جنت تری جاگیر ہُوی
چھوڑ واعظ تری اس بات میں کون آتا ھے

دل میں تُو،،ذہن میں تُو،فکر تری،ذکر ترا
جُز ترے اور خیالات میں کون آتا ھے

مٹ گیا نقشِ دوئی عکسِ تجلی سے نصیرؔ
اب نظر آہینہء ذات میں کون آتا ھے

پیر نصیر الدین نصیر

Leave a Comment
%d bloggers like this: