Skip to content

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا

اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا

ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا
یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا

کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں
یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا


اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ
اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا

Published inUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: