Skip to content

Month: June 2021

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ہوئے
جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے
وہ جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

اعتبار ساجد

Leave a Comment

اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی

اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی
پہلے اِس کام میں اک پائی نہیں ملتی تھی

گروی رکھتے تھے بصیرت کو بصارت کے عوض
اُن دنوں مفت میں بینائی نہیں ملتی تھی

اب تو محفل میں بھی آتا ہے اکیلا ہونا
پہلے خلوت میں بھی تنہائی نہیں ملتی تھی

ایسے سیارے پہ رہتے تھے جہاں سورج سے
نور ملتا تھا، توانائی نہیں ملتی تھی

اگلے وقتوں میں بھی ملتی تھی جہالت کو سند
لیکن اِس درجہ پذیرائی نہیں ملتی تھی

جب کبھی اُس کو سماعت کی فراغت ملتی
تب ہمیں قوتِ گویائی نہیں ملتی تھی

اب تو کچھ نفع بھی دے جاتی ہے یہ جنسِ جنوں
پہلے لاگت بھی، مرے بھائی! نہیں ملتی تھی!

تب ہمیں حکم تماشے کا ملا کرتا تھا
جب کوئی چشمِ تماشائی نہیں ملتی تھی

گنگناتا تھا سدا انترے سے عشق کا گیت
تجھ سے پہلے مجھے استھائی نہیں ملتی تھی

عمیر نجمی

Leave a Comment

نگاہ پھیر کے عذرِ وصال کرتے ہیں

نگاہ پھیر کے عذرِ وصال کرتے ہیں
مجھے وہ الٹی چھری سے حلال کرتے ہیں

زبان قطع کرو، دل کو کیوں جلاتے ہو
اِسی سے شکوہ، اسی سے سوال کرتے ہیں

نہ دیکھی نبض، نہ پوچھا مزاج بھی تم نے
مریضِ غم کو یونہی دیکھ بھال کرتے ہیں

مرے مزار کو وہ ٹھوکوں سے ٹھکرا کر
فلک سے کہتے ہیں یوں پائمال کرتے ہیں

پسِ فنا بھی مری روح کانپ جاتی ہے
وہ روتے روتے جو آنکھوں کو لال کرتے ہیں

اُدھر تو کوئی نہیں جس سے آپ ہیں مصروف
اِدھر کو دیکھیے، ہم عرض حال کرتے ہیں

یہی ہے فکر کہ ہاتھ آئے تازہ طرزِ ستم
یہ کیا خیال ہے، وہ کیا خیال کرتے ہیں

وہاں فریب و دغا میں کمی کہاں توبہ
ہزار چال کی وہ ایک چال کرتے ہیں

نہیں ہے موت سے کم اک جہان کا چکر
جنابِ خضر یونہی انتقال کرتے ہیں

چھری نکالی ہے مجھ پر عدو کی خاطر سے
پرائے واسطے گردن حلال کرتے ہیں

یہاں یہ شوق، وہ نادان، مدعا باریک
انھیں جواب بتا کر سوال کرتے ہیں

ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

داغ دہلوی

Leave a Comment
%d bloggers like this: