Skip to content

Tag: Kaifi Azmi

Kaifi Azmi

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزمِ گیتی
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی آج

رونمائی کی یہ ساعت یہ تہی دستئ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات، وفا نذر، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں

کب سے تخئیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری

مرحلے جھیل کے نکھرا ہے مذاقِ تخلیق
سعئ پیہم نے دئے ہیں یہ خد و خال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سُبُک چال تجھے

تیرے قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو

یہ ترا پیکرِ سیمیں، یہ گلابی ساری
دستِ محنت نے شفق بن کے اڑھادی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمالِ رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سِکھا دی تجھ کو

آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکّریں لہجے میں نچوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور

یہ لطافت، یہ نزاکت، یہ حیا، یہ شوخی
سو دیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لبِ شاداب پہ چھلکی ہوئی گلنار ہنسی
اک بغاوت ہے یہ آئینِ جراحت کے خلاف

حوصلے جاگ اٹھے، سوزِ یقیں جاگ اٹھا
نگہِ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارضِ حسیں پر سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گزاروں کو سلام

آ، قریب آ، کہ یہ جُوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
مری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے

Leave a Comment

شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے

شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے
لب تک آتے آتے ہاتھوں سے ساغر چھوٹ جاتا ہے

کافی بس ارمان نہیں، کچھ ملنا آسان نہیں
دنیا کی مجبوری ہے، پھر تقدیر ضروری ہے
یہ جو دشمن ہیں ایسے، دونوں راضی ہوں کیسے
ایک کو مناؤں تو دوجا، روٹھ جاتا ہے

بیٹھے تھے کنارے پہ موجوں کے اشارے پہ
ہم کھیلے طوفانوں سے، اس دل کے ارمانوں سے
ہم کو یہ معلوم نہ تھا کوئی ساتھ نہیں دیتا
ماجھی چھوڑ جاتا ہے ساحل چھوٹ جاتا ہے

دنیا ایک تماشا ہے، آشا اور نراشا ہے
تھوڑے پھول ہیں کانٹے ہیں جو تقدیر نے بانٹے ہیں
اپنا اپنا حصہ ہے، اپنا اپنا قصہ ہے
کوئی لُٹ جاتا ہے، کوئی لوٹ جاتا ہے

کیفی اعظمی

Leave a Comment
%d bloggers like this: