Skip to content

میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے

میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے
پر اس کا یہ نہیں مطلب کہ ہر کوئی آ جائے

میں اندھا بن کے گزرتے ہووؤں کو دیکھتا تھا
میں چاہتا تھا مجھے دیکھ کر کوئی آ جائے

کروں گا آج تلافی، سو، مجھ سمیت، اگر
کسی کو پہنچا ہو مجھ سے ضرر کوئی، آ جائے !

میں اُس کو دیکھ کے رستے میں یوں رکا، جیسے
سڑک کے بیچ ،اچانک شجر کوئی آ جائے

یوں آئی وصل کے دوران ایک ہجر کی یاد
کہ جیسے چھٹی کے دن کام پر کوئی آ جائے

یوں آئنے کے مقابل ہوں دم بخود، جیسے
کسی کو دیکھنا ہو اور نظر کوئی آ جائے

یہ سوچ کر نہیں دیتا میں تجھ کو دل میں جگہ
یہی نہ ہو کہ ترے ساتھ ڈر کوئی آ جائے

عمیر نجمی

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: