دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز
خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز
جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز
دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز
خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز
جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایaتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مومن خاں مومن
Leave a Commentاجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام
بہار ، پیڑ ، ہوا ، رنگ ، پھول ، بیل ، تمام
ابھی تو دل بڑا سینے میں رعب جھاڑتا ہے
اِدھر یہ دھڑکنیں بگڑیں اُدھر یہ کھیل تمام
وہ جن فضاؤں میں لیتا تھا سانس میں بھی وہیں
اس اشتراک سے قائم تھا تال میل تمام
تجھے ہی شوق تھا ہر تجربہ کیا جائے
سو اب یہ ہجر کی وحشت بدن پہ جھیل تمام
یہ زندگی مجھے سارے سبق سکھاتی رہی
میں ایک پاس ہوئی امتحاں میں ، فیل ، تمام
نشانہ باندھنے والو ، خدا کا خوف کرو
اڑا بھی سکتی ہے پنچھی مِرے ، غلیل تمام
کومل جوئیہ
Leave a Commentسایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
یہاں کس نے ہمیں بشر جانا
ہم کہ چپ کو تھے اک ہنر جانے
سب نے کم عقل ، بے خبر جانا
اک سفر ہے یہ زندگی لیکن
کون سمجھا مگر کدھر جانا
راہ ملتے ہی اپنی راہ گیا
یہاں جس جس کو ہمسفر جانا
کیا خرابی ہے میرا ہونے میں
تم کو آتا تو ہے مکر جانا
آنکھ اندھی ہو، کان بہرے ہوں
اس کو کہتے ہیں دل کا بھر جانا
ایسا سیلاب یہ محبت ہے
جس نے سیکھا نہیں اتر جانا
گل ہو، خوشبو ہو یا محبت ہو
سب کا انجام ہے، بکھر جانا
درد، وحشت ، اندھیرا ، دشت، خزاں
میرے دل کو سبھی نے گھر جانا
شبِ غم سے ہر ایک شب نے کہا
آج آئے بنا گزر جانا
ہر تعلق سراب ہے ابرک
جو نہ بھٹکا وہ کب مگر جانا
اتباف ابرک
Leave a Commentدلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
کسی خشک خاک کے ڈھیر پر
یا کسی مکاں کی منڈیر پر
دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
جہاں لوگ ہوں ، اُسے چھوڑ کر
کسی راہ پر ، کسی موڑ پر
دلِ گمشدہ ! کبھی مِل ذرا
مجھے وقت دے ، میری بات سُن
میری حالتوں کو تو دیکھ لے
مجھے اپنا حال بتا کبھی
کبھی پاس آ ! کبھی مِل سہی
میرا حال پوچھ ! بتا مجھے
میرے کس گناہ کی سزا ھے یہ…؟
تُو جنون ساز بھی خود بنا
میری وجہِ عشق یقیں تیرا
مِلا یار بھی تو ، ترے سبب
وہ گیا تو ، تُو بھی چلا گیا؟؟؟
دِلِ گمشدہ؟ یہ وفا ھے کیا؟
اِسے کس ادا میں لکھوں بتا؟
اِسے قسمتوں کا ثمر لکھوں؟
یا لکھوں میں اِس کو دغا، سزا؟
!دِلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں! جاناں !
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوئی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سنتا ہی نہیں اُس کو پکارے جائیں
باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک
اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں
ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں
دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں
تج دیا تم نے در یار بھی اکتا کے فرازؔ
اب کہاں ڈھونڈھنے غم خوار تمہارے جائیں
احمد فراز
کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزمِ گیتی
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی آج
رونمائی کی یہ ساعت یہ تہی دستئ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات، وفا نذر، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں
کب سے تخئیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری
مرحلے جھیل کے نکھرا ہے مذاقِ تخلیق
سعئ پیہم نے دئے ہیں یہ خد و خال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سُبُک چال تجھے
تیرے قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو
یہ ترا پیکرِ سیمیں، یہ گلابی ساری
دستِ محنت نے شفق بن کے اڑھادی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمالِ رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سِکھا دی تجھ کو
آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکّریں لہجے میں نچوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور
یہ لطافت، یہ نزاکت، یہ حیا، یہ شوخی
سو دیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لبِ شاداب پہ چھلکی ہوئی گلنار ہنسی
اک بغاوت ہے یہ آئینِ جراحت کے خلاف
حوصلے جاگ اٹھے، سوزِ یقیں جاگ اٹھا
نگہِ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارضِ حسیں پر سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گزاروں کو سلام
آ، قریب آ، کہ یہ جُوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
مری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے
ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺳﺨﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺮﻑ ﺩﺷﻨﺎﻡ
ﺑﮯ ﻣﮩﺮ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ
ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﮨﻤﻮﺍﺭﯼٔ ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﺳﻼﻣﺖ
ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﺎﻣﺎﻟﯽٔ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﭼﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﻌﺒﻮﺩ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺮﺥ ﺭﻭ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮕﮧ ﺩﺍﺭ
ﺍﺱ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺭﻻﯾﺎ
ﺍﺱ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﻭﺿﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ