Skip to content

The Poet Place Posts

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے
انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے
جو ہونا ہو ابھی اے جرأت رندانہ ہو جائے
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو
کوئی کمبخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے
بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
الٰہی دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں
الٰہی اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہ
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے
یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی
حفیظؔ اب لطف ہے اک نعرۂ مستانہ ہو جائے
حفیظ جالندھری

Leave a Comment

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا
بلبل گل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرض عشق سے دل کو
سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

میں نزع میں ہوں آئیں تو احسان ہے ان کا
لیکن یہ سمجھ لیں کہ تماشا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ہیں ہم سفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

یہ خیال سارے ہیں عارضی یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ہوئے
جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے
وہ جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

اعتبار ساجد

Leave a Comment

اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی

اُجرتِ قافیہ پیمائی نہیں ملتی تھی
پہلے اِس کام میں اک پائی نہیں ملتی تھی

گروی رکھتے تھے بصیرت کو بصارت کے عوض
اُن دنوں مفت میں بینائی نہیں ملتی تھی

اب تو محفل میں بھی آتا ہے اکیلا ہونا
پہلے خلوت میں بھی تنہائی نہیں ملتی تھی

ایسے سیارے پہ رہتے تھے جہاں سورج سے
نور ملتا تھا، توانائی نہیں ملتی تھی

اگلے وقتوں میں بھی ملتی تھی جہالت کو سند
لیکن اِس درجہ پذیرائی نہیں ملتی تھی

جب کبھی اُس کو سماعت کی فراغت ملتی
تب ہمیں قوتِ گویائی نہیں ملتی تھی

اب تو کچھ نفع بھی دے جاتی ہے یہ جنسِ جنوں
پہلے لاگت بھی، مرے بھائی! نہیں ملتی تھی!

تب ہمیں حکم تماشے کا ملا کرتا تھا
جب کوئی چشمِ تماشائی نہیں ملتی تھی

گنگناتا تھا سدا انترے سے عشق کا گیت
تجھ سے پہلے مجھے استھائی نہیں ملتی تھی

عمیر نجمی

Leave a Comment

نگاہ پھیر کے عذرِ وصال کرتے ہیں

نگاہ پھیر کے عذرِ وصال کرتے ہیں
مجھے وہ الٹی چھری سے حلال کرتے ہیں

زبان قطع کرو، دل کو کیوں جلاتے ہو
اِسی سے شکوہ، اسی سے سوال کرتے ہیں

نہ دیکھی نبض، نہ پوچھا مزاج بھی تم نے
مریضِ غم کو یونہی دیکھ بھال کرتے ہیں

مرے مزار کو وہ ٹھوکوں سے ٹھکرا کر
فلک سے کہتے ہیں یوں پائمال کرتے ہیں

پسِ فنا بھی مری روح کانپ جاتی ہے
وہ روتے روتے جو آنکھوں کو لال کرتے ہیں

اُدھر تو کوئی نہیں جس سے آپ ہیں مصروف
اِدھر کو دیکھیے، ہم عرض حال کرتے ہیں

یہی ہے فکر کہ ہاتھ آئے تازہ طرزِ ستم
یہ کیا خیال ہے، وہ کیا خیال کرتے ہیں

وہاں فریب و دغا میں کمی کہاں توبہ
ہزار چال کی وہ ایک چال کرتے ہیں

نہیں ہے موت سے کم اک جہان کا چکر
جنابِ خضر یونہی انتقال کرتے ہیں

چھری نکالی ہے مجھ پر عدو کی خاطر سے
پرائے واسطے گردن حلال کرتے ہیں

یہاں یہ شوق، وہ نادان، مدعا باریک
انھیں جواب بتا کر سوال کرتے ہیں

ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

داغ دہلوی

Leave a Comment

میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے

میں کھولتا ہوں درِ دل ، اگر کوئی آ جائے
پر اس کا یہ نہیں مطلب کہ ہر کوئی آ جائے

میں اندھا بن کے گزرتے ہووؤں کو دیکھتا تھا
میں چاہتا تھا مجھے دیکھ کر کوئی آ جائے

کروں گا آج تلافی، سو، مجھ سمیت، اگر
کسی کو پہنچا ہو مجھ سے ضرر کوئی، آ جائے !

میں اُس کو دیکھ کے رستے میں یوں رکا، جیسے
سڑک کے بیچ ،اچانک شجر کوئی آ جائے

یوں آئی وصل کے دوران ایک ہجر کی یاد
کہ جیسے چھٹی کے دن کام پر کوئی آ جائے

یوں آئنے کے مقابل ہوں دم بخود، جیسے
کسی کو دیکھنا ہو اور نظر کوئی آ جائے

یہ سوچ کر نہیں دیتا میں تجھ کو دل میں جگہ
یہی نہ ہو کہ ترے ساتھ ڈر کوئی آ جائے

عمیر نجمی

Leave a Comment

گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی

گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی
میرے خطوط کے ٹکڑے تلاش کرتی تھی

کہاں گئی وہ کنواری،اداس بی آپا
جو گاؤں گاؤں میں رشتے تلاش کرتی تھی

بھلائے کون اذیت پسندیاں اس کی
خوشی کے ڈھیر میں صدمے تلاش کرتی تھی

عجب ہجر پرستی تھی اس کی فطرت میں
شجر کے ٹوٹتے پتے تلاش کرتی تھی

قیام کرتی تھی وہ مجھ میں صوفیوں کی طرح
اداس روح کے گوشے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ پردے ہٹا کے چاند کے ساتھ
جو کھو گئے تھے وہ لمحے تلاش کرتی تھی

کچھ اس لئے بھی مرے گھر سے اس کو تھی وحشت
یہاں بھی اپنے ہی پیارے تلاش کرتی تھی

گھما پھرا کے جدائی کی بات کرتی تھی
ہمیشہ ہجر کے حربے تلاش کرتی تھی

تمام رات وہ زخما کے اپنی پوروں کو
میرے وجود کے ریزے تلاش کرتی تھی

دعائیں کرتی تھی اجڑے ہوئے مزاروں پر
بڑے عجیب سہارے تلاش کرتی تھی

مجھے تو آج بتایا ہے بادلوں نے وصی
وہ لوٹ آنے کے رستے تلاش کرتی تھی

Leave a Comment

سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی

سجا کے جسم پہ پوشاک نارسائی کی
تمہارے ہجر کی تقریبِ رونمائی کی

مجھے تو کھا گیا عفریت عشق کا لیکن
جہاں بھی بس چلا ، لوگوں کی راہنمائی کی

شفائے کاملہ کی آس گھٹتی جاتی ہے
بڑھائی جاتی ہے مقدار جب دوائی کی

تمہاری شکل بھی یوسف سے کم نہیں ، اک دن
کھلے گی تم پہ حقیقت تمہارے بھائی کی

وہ دیوتا تو نہیں تھا مگر محبت میں
تمام عمر مرے زعم پر خدائی کی

میں چیخ چیخ کے کہتی ہوں قید رہنے دو
نکالتا ہے وہ صورت اگر رہائی کی

کشید کرتے تھے لذت گناہ گاری سے
قسم اٹھاتے ہوئے لوگ پارسائی کی

تمہیں جہاں پہ بچھڑنا ہو تم بچھڑ جانا
تمہارے پاس سہولت ہے بے وفائی کی

کومل جوئیہ

Leave a Comment

منہ سے میرے نہیں نکلا کبھی ، آہا آہا

منہ سے میرے نہیں نکلا کبھی ، آہا آہا
ہاں مگر میں نے تجھے ٹوٹ کے چاہا، آہا

اپنی اک آنکھ مرے حالِ دلِ زار پہ رکھ
واقفِ حال ، مرے چور نگاہا ، آہا

میں تو لفظوں سے بناتا ہوں یہ تانے بانے
قریہِ میر کا ہوں ایک جولاہا ، آہا

میں سمجھتا تھا کہ میں تجھ کو بھلا بیٹھا ہوں
درد سے دل ، مرے سینے میں کراہا ، آہا

تو نے لوگوں کی محبت ، مری پہچان بنائی
مجھ پہ یہ تیرا کرم ہے مرے شاہا ، آہا

آمد و رفت ہی اس دنیا کی رعنائی ہے
اک تحرٰک میں ہے چورنگی ، چوراہا ، آہا

دل بھی دیکھے گا کبھی تیری جراحت کے کمال
تیرا بیمار ہوں میں ، میرے جراہا ، آہا

میں جو پڑھتا ہوں تو وہ مصرعہ اٹھا لیتا ہے
بارہا ، اس نے مرا شعر سراہا ، آہا

میری آنکھوں کے کناروں کو بھی روشن کر دے
دن کے سورج ، اے مری رات کے ماہا ، آہا

زخم بخشے ہیں تری یاد کی سسکاری نے
رکھ دے ہونٹوں پہ کوئی پھول سا پھاہا ، آہا

کتنے موقعوں پہ ، مرے دل نے دھڑکنا چھوڑا
بارہا تو نے مرے جی کو تراہا ، آہا

Leave a Comment

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا
زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر

گزرے دنوں میں جو کبھی گونجے تھے قہقہے
اب اپنے اختیار میں وہ بھی نہیں رہے

قسمت میں رہ گئی ہیں جو آہیں تو کیا ہوا
صدمہ یہ جھیلنا ہے شکایت کئے بغیر

وہ سامنے بھی ہوں تو نہ کھولیں گے ہم زباں
لکھی ہے اس کے چہرے پہ اپنی ہی داستاں

اس کو ترس گئی ہیں یہ باہیں تو کیا ہوا
وہ لوٹ جائے ہم پہ عنایت کئے بغیر

پہلے قریب تھا کوئی اب دوریاں بھی ہیں
انسان کے نصیب میں مجبوریاں بھی ہیں

اپنی بدل چکا ہے وہ راہیں تو کیا ہوا
ہم چپ رہیں گے اس کو ملامت کئے بغیر

قتیل شفائی

Leave a Comment
%d bloggers like this: