Skip to content

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں

عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں
میری مرضی ، میں کسی بات کی پابند نہیں

اپنے ہاتھوں کے اشاروں پہ چلاتی ہے ہمیں
زندگی حکم و ہدایات کی پابند نہیں

جن میں انسان کو کھا جائے فقط نام و نمود
ایسی فرسودہ روایات کی پابند نہیں

تیرے کہنے پہ چلی آؤں ، یہ امید نہ رکھ
میں ترے شوقِ ملاقات کی پابند نہیں

حبس بڑھتا ہے تو پھر رنگ سخن دیکھا کر
شاعری موسمِ برسات کی پابند نہیں

چھلنے لگتے ہیں مرے زخم سحر دم کومل
اب وہ وحشت ہے کہ جو رات کی پابند نہیں

کومل جوئیہ

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: