Skip to content

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے

ہے خرد مندی یہی باہوش دیوانہ رہے
ہے وہی اپنا کہ جو اپنے سے بیگانہ رہے

کفر سے یہ التجائیں کر رہا ہوں بار بار
جاؤں تو کعبہ مگر رخ سوئے مے خانہ رہے

شمع سوزاں کچھ خبر بھی ہے تجھے او مست غم
حسن محفل ہے جبھی جب تک کہ پروانہ رہے

زخم دل اے زخم دل ناسور کیوں بنتا نہیں
لطف تو جب ہے کہ افسانے میں افسانہ رہے

ہم کو واعظ کا بھی دل رکھنا ہے ساقی کا بھی دل
ہم تو توبہ کر کے بھی پابند میخانہ رہے

آخرش کب تک رہیں گی حسن کی نادانیاں
حسن سے پوچھو کہ کب تک عشق دیوانہ رہے

فیض راہ عشق ہے یا فیض جذب عشق ہے
ہم تو منزل پا کے بھی منزل سے بیگانہ رہے

مے کدہ میں ہم دعائیں کر رہے ہیں بار بار
اس طرف بھی چشم مست پیر میخانہ رہے

آج تو ساقی سے یہ بہزادؔ نے باندھا ہے عہد
لب پہ توبہ ہو مگر ہاتھوں میں پیمانہ رہے

Published inGazalsSad PoetrySufi PoetryUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: