Skip to content

Tag: Faiz Ahmad Faiz

Faiz Ahmad Faiz

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تُند ہیں شعلے ،،، سرخ ہے آہن

کُھلنے لگے ہیں قفلوں کے دہانے
پھیلا ہے ہر اک زنجیر کا دامن

بول کہ یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

جنوں میں جتنی بھی گزری بیکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے

ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوۓ یار گزری ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

چمن میں غارت گلچیں پہ جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

وہ نظر بہم نہ پُہنچی

وہ نظر بہم نہ پُہنچی ، کہ مُحیطِ حُسن کرتے
تیری دِید کے وسیلے ، خد وخال تک نہ پہنچے
کوئی یار جاں سے گزُرا ، کوئی ھوش سے نہ گزُرا
یہ ندیمِ یک دو ساغر ، میرے حال تک نہ پہنچے

“فیض احمد فیض”

Leave a Comment

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں

راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا

ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ

سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار

اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ

گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض

Leave a Comment

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے

ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا

اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔

فیض احمد فیض

Leave a Comment
%d bloggers like this: