Skip to content

کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے

کسی تصویر میں رنگوں سے ابھارے نہ گئے
تیرے چہرے کے دل آویز گلابی ہالے
میرے الفاظ کا ترشا ہوا سنگِ مرمر
کون سے بت میں تیرے جسم جواں کو ڈھالے

تیری نوخیز جوانی کے کنوارے موتی
جگمگاتے رہے وجدان کے آئینے میں
بن گئے رشک چمن لالہ و نرگس کی طرح
داغ اور زخم تھے جتنے بھی میرے سینے میں

تیری خوشبو سے مہکنے لگا گلشن گلشن
ڈالیاں پھولوں کی جھک کر تجھے کہتی ہیں سلام
گردشِ وقت رک جاتی ہے توبہ توبہ
میں نے دیکھا ہی نہیں تجھ سا کوئی آہستہ خرام

یہ تیرا پیکر صد رنگ یہ تیرا آہنگ جمال
دیکھ کر تجھ کو خیال آتے ہیں کیسے کیسے
تیرا چہرہ ہے کہ تخلیق مہ و مہر کا راز
تیری آنکھیں ہیں کہ اسرار دو عالم جیسے

تیری صورت تیری معصوم و مقدس صورت
میری ہر سوچ کے آئینے میں لہراتی ہے
ہائے وہ شعر کہ موزوں نہ ہوا جو تا عمر
تو اسی شعر کی تعریف بنی جاتی ہے

Published inUncategorized

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: