Skip to content

کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے

کون سے تھے جو تمھارے عہد ٹوٹے نہ تھے
خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے

باغباں کچھ سوچ کہ ہم قید سے چھوٹے نہ تھے
ورنہ کچھ پاؤں نہ تھے بیکار، پر ٹوٹے نہ تھے

خار جب اہلِ جنوں کے پاؤں میں ٹوٹے نہ تھے
دامنِ صحرا پہ یہ رنگین گل بوٹے نہ تھے

رہ گئی محروم آزادی کے نغموں سے بہار
کیا کریں قیدِ زباں بندی سے ہم چھوٹے نہ تھے

اس جوانی سے تو اچھی تھی تمھاری کم سنی
بھول تو جاتے وعدوں کو مگر جھوٹے نہ تھے

اس زمانے سے دعا کی ہے بہاروں کے لئے
جب فقط ذکرِ چمن بندی تھا گل بوٹے نہ تھے

کیا یہ سچ ہے اے مرے صیاد گلشن لٹ گیا
جب تو میرے سامنے دو پھول بھی ٹوٹے نہ تھے

چھوڑ تو دیتے تھے رستے میں ذرا سی بات پر
رہبروں نے منزلوں پر قافلے لوٹے نہ تھے

کس قدر آنسو بہائے تم نے شامِ غم قمر
اتنے تارے تو فلک سے بھی کبھی ٹوٹے نہ تھے

قمر جلالوی

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: