Skip to content

Tag: Peer Naseer

Peer Naseer

ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﻦ ﮐﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮭﻮﺋﮯﮐﮭﻮﺋﮯﺳﮯﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯﮨﯿﮟ

ﺩﻭ ﻗﺪﻡ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺭﮦ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﺗﻢ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﺎﻧﭧ ﻟﯽ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﺏ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮔﻨﺘﯽ ﮐﮯ ﺩﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﻗﺎﻓﻠﮧ ﭼﻞ ﮐﮯ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﮧ ﭘﮩﻨﭽﺎ
ﭨﮭﮩﺮﻭﭨﮭﮩﺮﻭ ! ﮐﮧ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯﻣﻨﮕﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ
ﺩﻧﮓ ﺍﮨﻞِ ﮐﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺘﺎﺭﯾﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮭﻮ
ﻋﺎﺻﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﮮ ﺻﺒﺎ ! ﺍﯾﮏ ﺯﺣﻤﺖ ﺫﺭﺍ ﭘﮭﺮ
ءﺍُﻥ ﮐﯽ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﮐﺎﺋﻨﺎﺕِ ﺟﻔﺎ ﻭ ﻭﻓﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺁﺝ ﺳﺎﻗﯽ ﭘﻼ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ
ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﯾﮧ ﮔﻠﯽ ﮐﺲ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﻭﮦ ﺗﻮ ﺁ ﮐﺮ ﮔﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮯ
ﺩﻝ ﭘﮧ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﻝ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ،ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﻭﮦ
ﮨﻢ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﻭﺭِ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﺁﺧﺮ
ﺍﮮ ﻧﺼﯿﺮ ! ﺍﯾﮏ ﮨﻢ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﯿﺮ ﺳﯿﺪ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﺼﯿﺮ ﮔﻮﻟﮍﻭﯼ

Leave a Comment

وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا

وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا
ہم کو آنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا

لاکھ ٹھُکرایا ہمیں تو نے مگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سے الگ ہو کے کہاں جانا تھا

جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا

بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا

نزع کے وقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں
ایسے عالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا

عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر
حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا

Leave a Comment

مرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نظر سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

ہوئیں جلوہ گر بہاریں کھلے گل چمن میں ، لیکن
وہ جو آ کے مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرا انجمن میں جانا کوئی اور رنگ لاتا
مجھے آپ خود بلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

انہیں کیا یہ بات سوجھی مجھے کس لیے مٹایا
غمِ آرزو مٹاتے تو کچھ اور بات ہوتی

دمِ نزع لے کے پہنچا ہے پیام ان کا قاصد
وہ جو آپ چل کے آتے تو کچھ اور بات ہوتی

کئی بار ہاتھ مجھ سے وہ ملا چکے ہیں، لیکن
جو نصیر ،دل ملاتے تو کچھ اور بات ہوتی

پیر سیدنصیر الدین نصیر رح

Leave a Comment

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
سمائے وہ میرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر

میرا کہنا یہی ہے تو نہ رُخصت ہو خفا ہو کر
اب آگے تیری مرضی، جو بھی تیرا مُدعا ہو، کر

معاذاللّه! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر، خدا ہو کر

بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں
مچل کر، مسکرا کر، روٹھ کر، تن کر، خفا ہو کر

نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر

اِنھیں پھر کون جانچے، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گُلشن میں پھولوں سے جدا ہو کر

سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو
چلے ہیں اے نصیرِ زار، وہ ہم سے خفا ہو کر

Leave a Comment

بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں

بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئے کھوئے سے ہم رہ گئے ہیں
کیجیئے جو سِتم رہ گئے ہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لیں سب نے آپس میں خوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہرو ٹھہرو میں ہم رہ گئے ہیں
اب نہ اُٹھنا سِرہانے سے میرے
اب تو گِنتی کے دَم رہ گئے ہیں
اللہ اللہ یہ کِس کی گلی ہے
اُٹھتے اُٹھتے قدم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تُم ایک ہم رہ گئے ہیں
دیکھ کر اُن کے منگتوں کی غیرت
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
ہم سے اللہ والے کہاں اب
آپ جیسے صنم رہ گئے ہیں
دو قدم چَل کے راہِ وفا میں
تھک گئے تُم کے ہم رہ گئے ہیں
وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے
دِل پہ نقشِ قدم رہ گئے ہیں
آج ساقی پِلا شیخ کو بھی
اِک یہی محترم رہ گئے ہیں
وہ گئے جِن کے دَم سے تھی رونق
اور رہنے کو ہم رہ گئے ہیں
اُن کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
اے صبا __ ایک زحمت ذرا پِھر
اُن کی زُلفوں کے خم رہ گئے ہیں
دورِ ماضی کی تصویرِ آخر
اب نصیر ایک ہم رہ گئے ہیں
دِل نصیر اُن کا تھا لے گئے وہ
غم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
سید نصیر الدین نصیر

Leave a Comment

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جس نے ہمیں پُل سے خود پار لگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے

اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جو حسن و شمائل میں یکتائے زمانہ ہے

عزت سے نہ مر جائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے

آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے

ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے

یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے

سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے

پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے

محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے “نصیر” آخر سائل تو پرانا ہے

Leave a Comment

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رخی کو بھی جو سمجھے تیرا احساں جاناں

جب بھی کرتی ہے میرے دل کو پریشاں دنیا
یاد آتی ہے تیری زلفِ پریشاں جاناں

میں تیری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں

مجھ سے باندھے تھے بنا کر جو ستاروں کو گواہ
کر دیے تو نے فراموش وہ پیماں جاناں

کبھی آتے ہوئے دیکھوں تجھے اپنے گھر میں
کاش پورا ہو میرے دل کا یہ ارماں جاناں

اک مسافر کو تیرے شہر میں موت آئی ہے
شہر سے دور نہیں گورِ غریباں جاناں

یہ تیرا حسن یہ بے خود سی ادائیں تیری
کون رە سکتا ہے ایسے میں مسلماں جاناں

کیوں تجھے ٹوٹ کے چاہے نہ خدائی ساری
کون ہے تیرے سوا یوسفِؑ دوراں جاناں؟

جاں بلب، خاک بسر، آہ بہ دل، خانہ بدوش
مجھ سا کوئی بھی نہ ہو بے سر و ساماں جاناں

یہ تو پوچھ اس سے جس پر یہ بلا گزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں

یہ وە نسبت ہے جو ٹوٹی ہے نہ ٹوٹے گی کبھی
میں تیرا خاک نشیں، تو میرا سلطاں جاناں

وە تو اک تمہارا ساتھ تھا کہ آڑے آیا
ورنہ دھر لیتی مجھے گردشِ دوراں جاناں

کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا
میں چلوں حشر میں کہتے ہوئے جاناں جاناں

در پہ حاضر ہے ترے آج نصیرِؔ عاصی
تیرا مجرم تیرا شرمندۂ احساں جاناں

سید نصیر الدین نصیرؔ

Leave a Comment

آئے تھے اگر تو دِل لُبھاتے جاتے

آئے تھے اگر تو دِل لُبھاتے جاتے
آنا تھا نہ یُوں تو پھر نہ آتے جاتے
دُہراؤں تو آتا ہے کلیجہ مُنھ کو
کُچھ یاد ہے، کیا کہا تھا جاتے جاتے
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
پیر سیّد نصیر الدین نصیرؔ

Leave a Comment

آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیے

آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیے
یُوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے

یا سر پہ آدمی کو بِٹھایا نہ کیجیے
یا پھر نظر سے اُس کو گِرایا نہ کیجیے

یُوں مَدھ بھری نِگاہ اُٹھایا نہ کیجیے
پینا حرام ہے تو پلایا نہ کیجیے

کہیے تو آپ محو ہیں کس خیال میں
ہم سے تو دِل کی بات چُھپایا نہ کیجیے

تیغِ سِتم سے کام جو لینا تھا لے چُکے
اہلِ وفا کا یُوں تو صفایا نہ کیجیے

مَیں آپ کا، گھر آپ کا، آئیں ہزار بار
لیکن کسی کی بات میں آیا نہ کیجیے

اُٹھ جائیں گے ہم آپ ہی محفل سے آپ ہی
دُشمن کے رُوبرو تو بِٹھایا نہ کیجیے

دِل دور ہوں تو ہاتھ مِلانے سے فائدہ؟
رسمًا کسی سے ہاتھ مِلایا نہ کیجیے

محروم ہوں لطافتِ فطرت سے جو نصیرؔ
اُن بے حسوں کو شعر سُنایا نہ کیجیے

نصیر الدین نصیر

Leave a Comment
%d bloggers like this: