Skip to content

Month: June 2020

خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے

خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خراب مے ترے غم تو بھلا دیے
لیکن غم حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسم عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آ کے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاج شوق گریزاں نہ کر سکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کر سکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاط روح کا ساماں نہ کر سکے

ساحر لدھیانوی

Leave a Comment

اس نے کہا کہ ہجر کے گزرو عذاب سے

اس نے کہا کہ ہجر کے گزرو عذاب سے
میں نے کہا کہ ضد تو نہیں ہے جناب سے

اس نے کہا کہ بادلوں میں چاند کیوں چھپے
میں نے کہا کہ پوچھ لو اپنے حجاب سے

اس نے کہا کہ چاند سے بڑھ کر حسین کون
میں نے کہا نکال تو چہرہ نقاب سے

اس نے کہا کہ تتلیاں ہیں میرے گرد کیوں
میں نے کہا کہ پیار ہے ان کو گلاب سے

اس نے کہا کہ خوفزدہ پھول کس سے ہیں
میں نے کہا کہ آپ کے چڑھتے شباب سے

اس نے کہا کہ ایک سمندر ہے دشت میں
میں نے کہا کہ دھوکا ہوا ہے سراب سے

اس نے کہا کہ درد کا رشتہ ہے دل سے کیا
میں نے کہا وہی کہ جو آنکھوں کا خواب سے

اس نے کہا کہ سنیے تو اک کام ہے مرا ۔۔
میں نے کہا کہ نجمیء خانہ خراب سے ؟

عمیر نجمی

Leave a Comment

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہوگی
خدا کے سامنے جب میری آپ کی ہوگی

تمام عمر بسر یوں ہی زندگی ہوگی
خوشی میں رنج کہیں رنج میں خوشی ہوگی

وہاں بھی تجھ کو جلائیں گے، تم جو کہتے ہو
خبر نہ تھی مجھے جنت میں آگ بھی ہوگی

تری نگاہ کا لڑنا مجھے مبارک ہو
یہ جنگ و ہ ہے کہ آخر کو دوستی ہوگی

سلیقہ چاہئے عادت ہے شرط اس کے لیئے
اناڑیوں سے نہ جنت میں مے کشی ہوگی

ہمارے کان لگے ہیں تری خبر کی طرف
پہنچ ہی جائے گی جو کچھ بُری بھلی ہوگی

مجھے ہے وہم یہ شوخی کا رنگ کل تو نہ تھا
رقیب سے تری تصویر بھی ہنسی ہوگی

ملیں گے پھر کبھی اے زندگی خدا حافظ
خبر نہ تھی یہ ملاقات آخری ہوگی

رقیب اور وفا دار ہو خدا کی شان
بجا ہے اُس نے جفا پر وفا ہی کی ہوگی

بہت جلائے گا حوروں کو داغ جنت میں
بغل میں اُس کی وہاں ہند کی پری ہوگی

داغ دہلوی

Leave a Comment

نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں

نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم اُن میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں

شروعِ راہِ محبت، ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں

یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں، مسکرائے جاتے ہیں

مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں، دامن چھڑائے جاتے ہیں

جو دل سے اُٹھتے ہیں شعلے وہ رنگ بن بن کر
تمام منظر فطرت پہ چھائے جاتے ہیں

میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں

رواں رواں لئے جاتی ہے آرزوئے وصال
کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں

کہاں منازلِ ہستی، کہاں ہم اہلِ فنا
ابھی کچھ اور یہ تہمت اُٹھائے جاتے ہیں

مری طلب بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اُٹھتے نہیں ہیں اُٹھائے جاتے ہیں

الہٰی ترکِ محبت بھی کیا محبت ہے
بھلاتے ہیں انہیں، وہ یاد آئے جاتے ہیں

سنائے تھے لب نے سے کسی نے جو نغمے
لبِ جگر سے مکرر سنائے جاتے ہیں

جگر مرادآبادی

Leave a Comment

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​
آ دِل میں تُجھے رکھ لُوں اے جلوہ جَانَانَہ​

کِیوں آنکھ مِلائی تِھی کیوں آگ لگائی تِھی​
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​

اِتنا تو کرم کرنا اے چِشمِ کریمانہ​
جب جان لبوں پر ہو تُم سامنے آ جانا​

اب موت کی سختِی تو برداشت نہیں ہوتِی​
تُم سامنے آ بیٹھو دم نِکلے گا آسانہ​

دُنیا میں مُجھے اپنا جو تُم نے بنایا ہے​
محشر میں بِھِی کہہ دینا یہ ہے مرا دیوانہ​

جاناں تُجھے مِلنے کی تدبِیر یہ سوچِی ہے​
ہم دِل میں بنا لیں گے چھوٹا سا صنم خانہ​

میں ہوش حواس اپنے اِس بات پہ کھو بیٹھا​
تُو نے جو کہا ہنس کے یہ ہے میرا دیوانہ​

پینے کو تو پِی لُوں گا پر عَرض ذرا سی ہے​
اجمیر کا ساقِی ہو بغداد کا میخانہ​

کیا لُطف ہو محشر میں شِکوے میں کیے جاوں​
وہ ہنس کے یہ فرمائیں دیوانہ ہے دیوانہ​

جِی چاہتا ہے تحفے میں بھِیجُوں اُنہیں آنکھیں​
درشن کا تو درشن ہو نذرانے کا نذرانَہ​

بیدمؔ میری قِسمت میں سجدے ہیں اُسِی دّر کے​
چُھوٹا ہے نہ چُھوٹے گا سنگِ درِّ جَانَانَہ

Leave a Comment

اے مدینے کے تاجدار تجھے

اے مدینے کے تاجدار تجھے ، اہل ایماں سلام کہتے ہیں
تیرے عُشّاق تیرے دیوانے ، جان جاناں سلام کہتے ہیں

تیری فرقت میں بے قرار ہیں جو ، ہجر طیبہ میں دل فگار ہیں جو
وہ طلبگار دید رو رو کر ، اے مری جاں سلام کہتے ہیں

جن کو دنیا کے غم ستاتے ہیں ٹھوکریں در بدر جو کھاتے ہیں
غم نصیبوں کے چارہ گر تم کو ، وہ پریشاں سلام کہتے ہیں

عشق سرور میں جو تڑپتے ہیں حاضری کے لئے ترستے ہیں
اذن طیبہ کی آس میں آقا ، وہ پُر ارماں سلام کہتے ہیں

تیرے روضے کی جالیوں کے قریب ساری دنیا سے میرے سرور دیں
کتنے خوش بخت روز آ آ کر ، تیرے مہماں سلام کہتے ہیں

دور دنیا کے رنج و غم کر دو اور سینے میں اپنا غم بھر دو
سب کو چشمان تر عطا کر دو ، جو مسلماں سلام کہتے ہیں

اے مدینے کے تاجدار تجھے اہل ایماں سلام کہتے ہیں
تیرے عُشّاق تیرے دیوانے جان جاناں سلام کہتے ہیں

Leave a Comment

اس درجہ بد گماں ہیں خلوص بشر سے ہم

اس درجہ بد گماں ہیں خلوص بشر سے ہم
اپنوں کو دیکھتے ہیں پرائی نظر سے ہم

غنچوں سے پیار کر کے یہ عزت ہمیں ملی
چومے قدم بہار نے گزرے جدھر سے ہم

واللہ تجھ سے ترک تعلق کے بعد بھی
اکثر گزر گئے ہیں تری رہگزر سے ہم

صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم

عقبیٰ میں بھی ملے گی یہی زندگی شکیلؔ
مر کر نہ چھوٹ پائیں گے اس درد سر سے ہم

شکیل بدایونی

Leave a Comment

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے

یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے

میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے

بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے

میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے

وہی تو سب سے زیادہ ہے نُکتہ چِیں میرا
جو مُسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے

میں اپنے دِل سے نِکالوں خیال کِس کِس کا
جو تو نہیں تو کوئی اور یاد آئے مجھے

زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے

وہ میرا دوست ہے، سارے جہاں‌ کو ہے معلوُم
دَغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

وہ مہْرباں ہے، تو اِقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگُماں ہے، تو سو بار آزمائے مجھے

میں اپنی ذات میں نِیلام ہو رہا ہُوں، قتِیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرِید لائے مجھے

قتِیل شِفائی

Leave a Comment

خلش, گھٹن ہے یہ تشنگی ہے

خلش, گھٹن ہے یہ تشنگی ہے
ہمیں تھا دھوکہ یہ زندگی ہے

پلک جھپکتے خوشی ندارد
تو غم نہ کوئی بھی عارضی ہے

ہیں سب رویے بجھے بجھے سے
نہ دوست اب ہے نہ دشمنی ہے

نہ کوئی سنتا نہ کہہ سکے ہم
ہے شور اتنا کہ خامشی ہے

جلایا امید نے دیا جب
تو سب سے پہلے یہ خود جلی ہے

تلاش میں تھا میں منزلوں کی
سفر سفر میں گزر گئی ہے

لکھا گیا تھا حیات جس کو
یہ رفتہ رفتہ سی خود کشی ہے

کبھی محبت تھی حرف آخر
تو اب تعلق یہ سرسری ہے

میں جب بھی نکلا تری گلی سے
تو سامنے پھر تری گلی ہے

یہ سب مری خوش گمانیاں ہیں
یہ سب محبت کی سادگی ہے

نہ جانے کب سے یوں جی رہا ہوں
کہ سانس جیسے یہ آخری ہے

میں جب سے سمجھا ہوں تجھ کو ابرک
یہ نیند تب سے اڑی اڑی ہے

اتباف ابرک

Leave a Comment

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں ، کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

مشکل ہیں اگر حالات وہاں ، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو ، کوچئہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں ، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے ، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

فیض احمد فیضؔ

Leave a Comment
%d bloggers like this: