Skip to content

Month: May 2020

سونے کا ڈھیر بیچ کے مٹی خرید لی

سونے کا ڈھیر بیچ کے مٹی خرید لی
بھوکی نے جسم بیچ کے روٹی خرید لی

میں کہتا ہی رہا مِرے بیٹے زمیں نہ بیچ
پاگل نے ماں کو بیچ کے گاڑی خرید لی

اب گاوں آنے جانے کے بھی سلسلے گئے
بھائی نے شہر میں نئی کوٹھی خرید لی

ہاری نے سارا سُود ہی یٙک مُشت دے دیا
مالک نے کچھ ہزار میں لڑکی خرید لی

میں جیب خرچ کے لئے دیتا رہا مگر
بیٹی نے پیسے جوڑ کے چُنی خرید لی

میلے میں جیب کٹ گئی لیکن یہ شکر ہے
بابا کے واسطے نئی پگڑی خرید لی

اب اِس بڑھاپے میں بھلا کیا وقت دیکھنا
میں نے گھڑی کو بیچ کر جوتی خرید لی

مُتشاعرہ پہ کس لئے ہیں اُنگلیاں اُٹھی
شاعر نے اپنی شاعری بیچی، خرید لی

بیٹی نے پہلی عید پر مانگی تھی مان سے
بوڑھے نے خُون بیچ کر مہندی خرید لی

میثم علی آغا

Leave a Comment

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے

نجانے کیوں دلوں کے سلسلے پیہم نہیں ملتے
جہاں پر ہم میسر ہوں وہاں پر تم نہیں ملتے

یقیناً فاصلوں میں اک طرح سے جوش قربت ہے
کنارے ساتھ چلتے ہیں مگر باہم نہیں ملتے

ترستا ہے کوئی اک پل کی راحت کے لیے برسوں
کسی کو چاہ کر بھی زندگی میں غم نہیں ملتے

کہیں ملتا نہیں عشاق کو سامان دلجوئی
کہ اب معشوق کی زلفوں میں پیچ و خم نہیں ملتے

فقیروں کے قدم چومے ہمیشہ کجکلاہوں نے
خزانے خاک کے ذروں میں بھی کچھ کم نہیں ملتے

کسی بھی پیڑ پر کردار کے اب پھل نہیں لگتا
مزاجوں میں مروت کے وہ اب موسم نہیں ملتے

خیالوں کے سفر نے تو ہمیں لٹکا دیا عابد
فلک ہم سے نہیں ملتا , زمیں سے ہم نہیں ملتے

عابد بنوی

Leave a Comment

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا

مرے وسیلے سے جتنے بھی پیڑ روئے ہیں
انہیں میں ہِیر سناتے ہوئے نہیں ڈرتا

حضور! آپ ہی روکیں کہ میں تو پاگل ہوں
کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہیں ڈرتا

ہزار بار بتایا کہ بد شگونی ہے
مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا

میں پیٹ کاٹ کے زندہ ہوں اور ڈرتا ہوں
تُو فن کو بیچ کے کھاتے ہوئے نہیں ڈرتا؟

عجیب شوقِ طبیعت ہے افتخار فلکؔ
کوئی بھی آنکھ لڑاتے ہوئے نہیں ڈرتا

Leave a Comment

بےیقینی، بےثباتی، بےکرانی ،کا سفر

بےیقینی، بےثباتی، بےکرانی ،کا سفر
ہر نفس کا منتظر ہے رائگانی کا سفر

ریگزارِخواب پر ہیں ہجرتوں کے قافلے
چار سو پھیلا ہوا ہے بے نشانی کا سفر

بے تحاشا راستے ،بے انتہا اوارگی
پوچھ مت کیسا رہا بےسائبانی کا سفر

کعبہ ہو ، یا بت کدہ ہو ،ہم نے پایا جابجا
بے نیازی، خودفریبی، لن ترانی کا سفر

کمسنوں کے دامنوں پر حسن کی نوخیزیاں
دیکھ یوں تشکیل پاتا ہے جوانی کا سفر

جسم ہائے ٹوٹتا ہے اے ملائک تخلیہ
جھیل کر ہم آ رہے ہیں زندگانی کا سفر

Leave a Comment

حضورﷺ ایسا کوئی انتظام ہو جائے

حضورﷺ ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کےلیےحاضر غلام ہو جائے

خداکرےکہ مدینہ پاک کاھوسفرہر سال
ھماری عمراسی میں تمام ھوجاٸے

میں صرف دیکھ لوں اک بار صبح طیبہ کو
بلا سےپھر مری دنیا میں شام ہو جائے

تجلیات سےبھر لوں میں کاسئہ دل و جاں
کبھی جو اُن کی گلی میں قیام ہو جائے

حضور ﷺآپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے

حضورﷺ آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل
سمٹ کےفاصلہ یہ چند گام ہو جائے

ملےمجھےبھی زبان بوصیری و جامی
مرا کلام بھی مقبول عام ہو جائے

مزا تو جب ہےفرشتےیہ قبر میں کہہ دیں
صبیح! مدحتِ خیر الانام ہو جائے

(صلی اللہ علیہ وسلم)

Leave a Comment

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کسی نے بھی نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جن کو
وہ سارے ولولے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مفلسوں کی تب کہاں اس بام تک پہنچے

قتیلؔ آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری اِلہام تک پہنچے

Leave a Comment

عشق ہم سے ہوا ہی نہیں

عشق ہم سے ہوا ہی نہیں
بس اندھیرا کوئی دیا ہی نہیں

بچھڑ کے کہتے ہو بچپنا چھوڑو
جیسے یہ کوئی سزا ہی نہیں

دشت بھر یوں اداس ترے بعد
فضا میں کوئی ہوا ہی نہیں

نمی آنکھوں سے بہے جاتی ھے
ویسے دل کو کوئی گلہ ہی نہیں

عجب سناٹا ھے بین کرتا ہوا
جیسے اپنا کوئی رہا ہی نہیں

تم بھی جاو گے تو کیا کہوں گا
زمانے تجھ میں زرا وفا ہی نہیں

میں مریض عشق ہوں صاحب
آپ کہہ دو کوئی دوا ہی نہیں

رضی وہ مصروف قتل ہیں ایسے
جیسے بستی میں خدا ہی نہیں

Leave a Comment

جاری تھی کب سے “کُن” کی صدا ،روک دی گئی

جاری تھی کب سے “کُن” کی صدا ،روک دی گئی
لیکھک کا دل بھرا تو کتھا روک دی گئی

اس نے تو صرف مجھ کو اشارہ کیا کہ رک
ہر چیز اپنی اپنی جگہ روک دی گئی

ہر شب ہوا سے بجتی تھیں سب بند کھڑکیاں
اک شب وہ کھول دیں تو ہوا روک دی گئی

جانے ہیں کتنی چوکیاں، عرشِ بریں تلک.؟
جانے کہاں ہماری دعا روک دی گئی؟

میں لاعلاج ہو گیا ہوں، یوں پتہ چلا
اک دن، بنا بتائے، دوا روک دی گئی

گریے کو ترک کر کے میں خوش باش ہو گیا
غم مر گیا جب اس کی غذا روک دی گئی

میری سزائے موت پہ سب غمزدہ تھے، اور
میں خوش کہ زندگی کی سزا روک دی گئی
عمیر نجمی

Leave a Comment

پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے

پرائی نیند میں سونے کا تجربہ کر کے
میں خوش نہیں ہوں تجھے خود میں مبتلا کر کے

اصولی طور پہ مر جانا چاہیے تھا مگر
مجھے سکون ملا ہے تجھے جدا کر کے

یہ کیوں کہا کہ تجھے مجھ سے پیار ہو جائے
تڑپ اٹھا ہوں ترے حق میں بد دعا کر کے

میں چاہتا ہوں خریدار پر یہ کھل جائے
نیا نہیں ہوں رکھا ہوں یہاں نیا کر کے

میں جوتیوں میں بھی بیٹھا ہوں پورے مان کے ساتھ
کسی نے مجھ کو بلایا ہے التجا کر کے

بشر سمجھ کے کیا تھا نا یوں نظر انداز
لے میں بھی چھوڑ رہا ہوں تجھے خدا کر کے

تو پھر وہ روتے ہوئے منتیں بھی مانتے ہیں
جو انتہا نہیں کرتے ہیں ابتدا کر کے

بدل چکا ہے مرا لمس نفسیات اس کی
کہ رکھ دیا ہے اسے میں نے ان چھوا کر کے

منا بھی لوں گا گلے بھی لگاؤں گا میں علیؔ
ابھی تو دیکھ رہا ہوں اسے خفا کر کے

Leave a Comment
%d bloggers like this: